تحریر: مولانا محمد رضا،مبلغ جامعہ امامیہ
حوزہ نیوز ایجنسی | رسول اسلام جس وقت اپنے پہلے اور آخری حج کو مکمل کرکے مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے تھے۔تو درمیان راہ میں اللہ کی طرف سےجبرئیل امین،پیغمبر امین کے حضور میں حتمی پیغام کو آیت کی شکل میں لیکر حاضر ہوئے۔ جس کا مضمون کچھ یوں تھا :اے رسول !اس پیغام کو لوگوں تک پہونچادیجئے جس کا حکم ہم پہلے ہی آپ کودے چکے ہیں اگر آپ نےنہیں پہونچایا تو تبلیغ دین میں آپ کی تمام تر جانفشانیاں رائگاں ہو جائیں گی۔ جس پیغام کے لئے قدرت نے اتنا اہتمام برتاہواورجس پر ابتداء دین سے لیکر رسول اسلام تک کی تما م کوششوں اور محنتوں کے رنگ لانےکا انحصارہو اس حکم اور امر کی خلاف ورزی یااس کے مقابلہ میں تین ستونوں کی عمارت بنانا یقیناً ہلاکت اور تباہی کے راستہ کو چننے جیسا ہے اور اعتبار کا گلا گھونٹنا ہے ۔جو ختمی مرتبت کی زبان مبارک سے کلام وحی کی صورت میں قائم ہوچکاتھا۔یقیناً اس کا انجام رسوائی وعذاب آخرت کے سوا کچھ نہیں۔
ہوا بھی یہی، جونہی رسول اسلامؐ نےغدیر کے میدان میں اپنے بعد علیؑ کی ولایت وامامت کا اعلان کیا ،ایک ناہنجار شخص نے وہیں انکار کرنے کی جسارت کی جس کی نابودی اور رسوائی کا منظر سوالاکھ حاجیوں نے قریب سے دیکھاہے کہ حاسد کے انکار پر اس کا انجام اس عذاب الٰہی کی جھلک ہے جو منکرین غدیر کا مقدر ہے۔
جب کہ کچھ لومڑی مزاج ظاہراً بخِِ بخِِ کہتے رہےاور اندر اندرخون کے گھونٹ پیتے رہےاور انکا نفاق اس وقت تک نہیں ظاہرہوا جب تک رسول باحیات تھے ۔لیکن جیسے ہی رسول اسلامؐ اس دنیا سے رنجیدہ حالت میں رخصت ہوگئے اور مظلومیت کے ساتھ سپرد لحد ہوئے منافقوں نے اپنے اپنے چہروں سے اسلام کی نقاب کو نوچ کر پھینک دی اور مکمل طور پر جانشین رسولؐ علی مرتضیٰ علیہ السلام کےخلاف میدان میں اتر کر آگئے اور سقیفہ جیسا مصنوعی خلیفہ سازی کا کارخانہ وجود میں آیا جس میں کچھ کینہ توز اور ضمیر فروش افراد کے ووٹوں کی بیساکھی کا سہارا لیکرکچھ جاہل ،نابکارے اور نااہل خلافت رسول ؐکی مسند پر پائوں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔علیؑ کی ولایت کا مسلسل انکار ہوتا رہا اورعلیٰؑ مصلحتاً خاموش رہے ۔مصنوعی خلفاء یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کو خلیفۃ المسلمین بناتےرہے اورغدیر کے مقابلہ میں خلیفہ سازی کاکوئی ایک معیار قائم نہ رکھ سکے۔وصیت ،شوریٰ اورانتخاب کی مخالفت کرنے والے بالترتیب اسی عمل سے خلیفہ سازی کے غیر مستقر نظام کو اپناتے رہے۔
ہے بند منعم وغوث وولی کا دروازہ
حیات ڈھونڈھ رہی ہے علیؑ کا دروازہ
حقیقی ولی ِخدا صبر کرتا رہا ،اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ جو رب کی طرف سے علی بناکر بھیجا گیا ہے اس کوکوئی پست نہیں کرسکتااورخدا نے جسے تاریخ اسلام کا عزیز ترین شخص بنایا ہے وہ ذلیل نہیں ہوسکتااس لئے کہ صحابیت اورچیز ہے نفس رسول ؐ کی سرتاجی اور شے ہے۔
ہاں !مگرمنکرین ولایت کو ذلت کا سامنا ضرورکرنا پڑااور آج تک تاریخ ان کی ذلت کی گواہی دے رہی ہےاورحکم رسولؐ وامر نہی کی سرپیچی کے کلنک کو تہرے پردے بھی نہ چھپاسکے۔
اسی طرح اگر تاریخ کا باقاعدہ تجزیہ کیا جائے توبنام اسلام بہت سے بزرگوں کا چہرہ ابھر کر سامنے آئےگا جنہوں نے انکار ولایت کرکے ذلت کو ہمیشہ کے لئے خرید لیا ،جنت کوخود سے دور اور جہنم کو اپنا ٹھکانا بنا لیا۔
نشیب وفراز سے بھری تاریخ سےاقتباس کرتے ہوئےمنکرین ولایت علیؑ کی رسوائی کاواقعہ پیش کرتا ہوں جو مکمل طریقے سے میری بات کی تصدیق و تائید کرتا ہے:
مولائے کائنات جب اپنے لشکر کے ہمراہ (جن میں رسول اسلام ؐ کے جلیل القدر اور نامور صحابی بھی موجود تھے)جنگ صفین سےواپس آرہے تھے ،درمیان راہ رحبہ نامی مقام پر آرام کی خاطریہ قافلہ تادیررکا۔مولائےکائناتؑ خطبہ دینے کی غرض سے ایک بلندی پر گئے۔تمجید وثنائے الٰہی اورمحمد وآل محمد پر صلوات ودرود سے خطبہ کا آغاز فرمایا۔بات سے بات نکلتی گئی ،درمیان خطبہ میں گفتگو غدیرتک جاپہونچی تو مولا ؑنے رسول اکرمؐ کے فیضان صحبت سے محروم انس بن مالک سے واقعہ غدیر اور اپنی ولایت وامامت سے متعلق استفسار فرمایا۔ انس بن مالک نےسر کھجلاتے ہوئے کہا کہ ضعیفی نے میری عقل وشعور کو سلب کرلیا ہے ۔لہٰذااس واقعہ سے متعلق اب کوئی بھی بات صحیح طور پر میرے حافظہ میں باقی نہیں رہی۔پھر امام علیؑ نے دیگر افراد سے واقعہ غدیر اوراپنی ولایت سے متعلق سوال کیا تو سب نے آپ کی ولایت کی گواہی سے منھ پھیر لیا ،پھرمولانے بددعا دیتے ہوئے کہا:اے انس! اللہ تم کو ایسےرسواکن مرض میں مبتلا کرے کہ تمہارا عمامہ بھی اسے چھپا نہ سکے ،پھر بقیہ لوگوں کی طرف رخ کیااور فرمایا:تم لوگوں کو اللہ ایسی بیماری اور بلا میں گرفتار کرے کہ تم لوگ دنیا وآخرت دونوں جگہ ذلت ورسوائی دیکھو۔تاریخ میں یہ ثبت ہے کہ انس بن مالک کے چہرے پر برص ہوگیا ،اس نے عمامہ کے ذریعہ اس کو لاکھ چھپانےکی کوشش کی مگرمرض میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ برص پورے جسم میں پھیل گیا ،جس کے بعد ’’لایری الا مبرقع ‘‘انس نے اس ذلت آمیز مرض کو چھپانے کی خاطر پوری زندگی برقع میں گذاردی،اور بقیہ لوگوں کی زندگی بھی ذلت ورسوائی کے ساتھ ناکامی پر ختم ہوئی،ان میں کوئی عقل وشعور سے محروم ہوکر پاگل ہوگیاتوکوئی اندھا ہوگیااوراس کی زندگی واقعاً تاریک ہوگئی اورکوئی اپنی کنیز کے گھر ذلت ورسوائی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا۔
اس کامطلب یہ ہے کہ جو بھی نبأ عظیم یعنی ولایت علیؑ جیسی عظیم نعمت کا انکار کرے گا اللہ اسے دونوں جہاں کی نعمتوں سے محروم اور اسےہمیشہ ہمیشہ کے لئے قعر مذلت و رسوائی میں پہونچادےگا جس کے بعد اسے ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔