حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم کی جانب سے قم المقدسہ میں مجالس عزا کا انعقاد کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلیمن مولانا سید شمع محمد رضوی نے بیان کیا کہ جہاں دنیا کے ہر گوشہ و کنار میں رحلت حضرت محمد مصطفے (ص) اور امام حسنؑ کے سلسلے سے مجلسوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم،ایران نے مجالس عزا کا اہتمام کیا۔ امام حسنؑ اور آپکے نانا کا یہ احسان رہتی دنیا تک کوئی بھلا نہیں سکتا جنکی وجہ سے دنیا قائم اور دایم ہے (اگریہ نہ ہوتے توکائنات نہیں ہوتی )۔
انہوں نے کہا کہ سلسلہ امامت کی دوسری کڑی پر نہات دقیق مطالعہ کی ضرورت ہے،اوراس سلسلے سے مرکز تشیع علمی مرکز قم،ایران سے قوی رابطہ درکارہے، کیونکہ؟ آجکی دنیامیں اس بات کے سبھی قائل ہیں جو علمی بیداریاں جمہوری اسلامی انقلاب نے پوری دنیا میں پھیلی ہیں اسکا کوئی ثانی نہیں؟ لہذا اس مسئلے میں اس اہم ملک سے رابطہ نہات ضروری ہے، جنکے ذریعے سے ایمان محکم ہوتا ہے عقیدہ مضبوط ہوتا ہے اور فقہ وفقاہت سے سبھی کا گھر خوشبودار ہوا کرتا ہے۔
مزید کہا کہ رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے اپنی مسلسل تقاریر میں فرمایا: امام حسنؑ کی ذات وہ بے مثال ذات و صفات ہے جسکی تاریخ میں نظیر نہیں، ہمارے رہنما اور پیشوا نے کئی بار فرمایا: لفظ ثروت کو زبان سے دہرانا آسان ہے یعنی کسی کو روپیہ پیسہ دینا جسکے پاس ہے وہ کسی کو دیتے ہیں جب توقیق الہی شامل حال ہوتی ہے مگر؟ اگرکوئی اپنی زندگی کو فدا کردے یہ بہت بڑا کمال ہوتا ہے، امام حسنؑ کے لئے ملتا ہے انہوں نے چند بار اپنی مالی زندگی کو بھی لٹادیا، اسے کمال کہتے ہیں اسے بخشندگی اور خداکی رضایت پاناچکہتے ہیں، ایسا گھرانہ کہاں پائے جاتے ہیں جو اسلام کی اس انداز سے ترویج کرے،
مولانا موصوف نے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی باتوں کو تقویت کرے، حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے اپنی تقریر میں مزید فرمایا تھا جسے بار بار تکرار ضروری ہے،یہ پورا کا پورا گھرانہ عظیم ایثار و استقامت کا گھرانہ ہے حضرت خدیجہ (س) کی زندگی میں بھی یہ ملتا ہے اپنا پورا کا پورا مال اسلام پہ لٹادیا، آپکی ذات گرامی یقینا مظلوم ہے، رسول اسلام (ص) کی اور بھی محترمہ ہمسر گرامی ہیں لیکن جو حضرت خدیجہ نے سختیاں جھیلیں وہ کسی اور نے نہیں، جناب خدیجہ (س) نے ایام رنج ،دوران سختی میں بھی ساتھ دیا اور تحمل و صبر سےکام لیا،شروع کی زندگی بھی ملاحظہ کی جائے توسب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ (س) اور امیرالمومنین حضرت علیؑ تھے یہ بھی امتیاز آپکو نصیب ہوا،یہ آسان بات نہیں ہے،ایک عقیدے سے جہاں مدتوں ان لوگوں کے ساتھ زندگیاں گزاری ہوں دوسرے عقیدے کو قبول کرنا اور بنحو احسن اس پہ عمل کرنا آسان نہیں؟ ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں جانا اورکامیاب بن جانایہ آسان نہیں ہوتاہے،چونکہ ہم اور آپ اس راہ سے گزرے نہیں اسلے درک کرناطآسان نہ ہو۔
مولانا شمع محمد رضوی نے کہا کہ اگر صبر، تحمل، ایثار، مقاومت اور خدا پر بھروسہ نہیں ہو تو کامیابی نہیں ملتیں؟آپ نے صدق قضیہ، حقانیت پیغمبر (ص) کو سوچ اور سمجھ لیا پھر وادی میدان پاک میں قدم رکھا،جب حضرت پیغمبر (ص) غارحرا سے اس حالت (معروف اور مذکور کتاب) میں واپس آئے تو بغور دیکھا یہ آسان شئ نہیں بلکہ مہم حادثہ ہے، لہذا آپکا قلب مبارک مجزوب ہوا اور پھر صاحب ایمان ہوئیں،اور یہی نہیں بلکہ اپنے ایمان پہ استقامت کے ساتھ باقی رہیں ،ساری ثروت دین اسلام میں خرچ کردی، اور پھر بعد میں مشکلات کابسامنا بھی کرنا شروع کیا،کہ جسمیں سے ایک شعب ابوطالب ہے، کتنی سختیاں گزاریں اسے تاریخ کبھی بھی بھلانہیں سکتی۔
قرآن وعترت فاونڈیشن کے بانی نے کہا کہ دوسرے امام امام حسن کی مختصر زندگانی منابع اہل تسنن کی نظر سے بھی مطالعہ کیجئے جہاں یہ ملتاہے کہ! : دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام ١۵ رمضان المبارک ٣ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، ان کے والد ماجد حضرت علی ابن ابی طالب اورمادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا ہیں انہوں نے سات سال اپنے نانا پیغمبر اسلام ۖ اور ٣٠ سال والد محترم حضرت علی کے پاک و پاکیزہ سایہ عاطفت میں گزارے ۲۱رمضان المبارک چالیس ہجری حضرت علی کی شہادت کے بعد دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور ہجری میں اڑتالیس سال کی عمر میں زہر دغاسے شہید کردئے گئے اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔ آپکے مدد کرنے کا انداز بھی نرالہ تھا؟: تاریخوں میں ملتاہے کہ! ہمارے دوسرے امام نہ تنہا علم و تقوی، زہدو بردباری اور حلم و تواضع کے حامل تھے بلکہ جود و سخا میں بھی آپ کا جواب نہیں تھا، آپ بے نظیر تھے ۔ کوئی فقیر آپ کے درسے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ۔ سیوطی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ حسن بن علی بہت سی عظمتوں کے حامل تھے جودوسخا میں سب سے آگے تھے فقیروں کو اتنا دیتے تھے کہ ان کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی اور دوسرے کے دروازوں پر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔توجہ طلب بات :امام حسن غریبوں اور فقیروں کو ایک مرتبہ میں ہی ایک اچھی رقم عطا کردیا کرتے تھے جو لوگوں کے لئے باعث تعجب تھا اس جودوسخامیں جواہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ امام حسن اس عمل کے ذریعے فقیر کو ہمیشہ کے لئے بے نیاز کر دیتے تھے اور وہ فقیر اس بات پر قادر ہو جاتا تھا کہ اپنی ضروریاتِ زندگی کو بر طرف کر سکے اور ایک آبرومندانہ زندگی گذار سکے نیز اپنے لئے ایک سرمایہ مہیا کرسکے۔
مزید کہا کہ امام اس بات کو گوارہ نہیں فرماتے تھے کہ فقیر کو اتنی ناچیز رقم دی جائے وہ ایک دن کے لئے بھی ناکافی ہو جس کے نتیجے میں وہ مجبور ہو کر ہر روز اپنے پیٹ کی خاطر دوسروں کے سامنے دستِ نیاز دراز کرے۔۔
مولانا شمع محمد رضوی کی اطلاع کے مطابق سال گزشتہ کی طرح امسال بھی قرآن وعترت فاونڈیشن کی جانب سے ٢٩ صفر سے ٨ ربیع الاول تک مجالس کا اہتمام کیا گیا ہے جسمیں مختلف برجستہ خطباع کرام رونق افروز منبر ہونگے، آجکی اس مجلس کوخطاب فرمایاکراچی پاکستان کے جوان خطیب حجة الاسلام والمسلمین مولاناسید حسنین عباس نے ،آپ نے اپنی تقریر میں بھرپور علمی مطالب پیش کئے، مجالس کا سلسلہ جاری ہے سبھی سے شرکت کی استدعا ہے۔