۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں معصومین (ع) کی ولادت پر پرسش و پاسخ کا سلسلہ

حوزہ/ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور،بہار کے برجستہ طلاب نے جشن امام حسن ؑ کے نام سے "علمی پروگرام پرسش و پاسخ" ،سوال وجواب کی شکل میں منعقد کیا،جسمیں کوششیں کی گئیں کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے مطالب پیش ہوسکیں۔جسمیں پوری توانائی سے لوگوں نے بھرپورحصہ لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور،بہار کے برجستہ طلاب نے جشن امام حسن ؑ کے نام سے علمی پروگرام پرسش و پاسخ ،سوال وجواب کی شکل میں منعقد کیا،جسمیں کوششیں کی گئیں کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے مطالب پیش ہوسکیں۔جسمیں پوری توانائی سے لوگوں نے بھرپورحصہ لیا۔

مولوی کرار حسین رضوی! سوال:دوسرے امام امام حسنؑ کی مختصر زندگانی منابع اہل تسنن سے پیش فرمائیں؟۔

مولوی فیضان علی ! جواب: دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام ١٥ رمضان المبارک  ٣ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، ان کے والد ماجد حضرت علی ابن ابی طالب  اورمادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا ہیں انہوں نے سات سال اپنے نانا پیغمبر اسلام ۖ اور ٣٠ سال والد محترم حضرت علی کے پاک و پاکیزہ سایہ ٔعاطفت میں گزارے۔٢١ رمضان المبارک چالیس ہجری حضرت علی کی شہادت کے بعد دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور ۵۰ ہجری میں اڑتالیس سال کی عمر میں زہر دغاسے شہید کردئے گئے اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ 

مولوی کرار حسین رضوی ! سوال: دوسرے امام امام حسنؑ کی زندگی میں لوگوں کی مددکا کیاطریقہ تھا؟                             

مولوی فیضان علی !جواب: میرے بھائی آپنے بہت پیاراسوال کیا جسکی معاشرہ میں سخت ضرورت ہے۔دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام محتاجوں کی فریاد رسی۔ اسلامی قوانین میں محتاجوں کی مدد کرنا مالداروں کی ذمہ داری ہے کیونکہ تمام مسلمان معنوی رشتہ کے تحت آپس میں بھائی ہیں آنحضرت ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے فقط اس کی تاکید ہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے اپنے زمانوں میں فقیروں کی ضرورت اور احتیاج کو پورا بھی کرتے رہے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے دوسرے امام نہ تنہا علم و تقویٰ، زہدو بردباری اور حلم و تواضع کے حامل تھے بلکہ جود وسخا میں بھی آپ کا جواب نہیں تھا، آپ بے نظیر تھے ۔ کوئی فقیر آپ کے درسے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ۔ سیوطی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ حسن بن علی  بہت سی عظمتوں کے حامل تھے جودوسخا میں سب سے آگے تھے فقیروں کو اتنا دیتے تھے کہ ان کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی اور دوسرے کے دروازوں پر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔توجہ طلب بات :امام حسن غریبوں اورفقیروں کو ایک مرتبہ میں ہی ایک اچھی رقم عطا کردیا کرتے تھے جو لوگوں کے لئے باعث تعجب تھا اس جودوسخامیں جواہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ امام حسن اس عمل کے ذریعے فقیر کو ہمیشہ کے لئے بے نیاز کر دیتے تھے اور وہ فقیر اس بات پر قادرہوجاتا تھا کہ اپنی ضروریاتِ زندگی کو بر طرف کر سکے اورایک آبرومندانہ زندگی گذار سکےنیز اپنے لئےایک سرمایہ مہیّا کرسکے امام اس بات کو گوارہ نہیں فرماتے تھے کہ فقیرکواتنی ناچیزرقم دی جائےجو ایک دن کے لئے بھی ناکافی ہو جس کے نتیجے میں وہ مجبور ہو کر ہرروز اپنے پیٹ کی خاطر دوسروں کے سامنے دستِ نیاز دراز کرے۔

مولوی کرار حسین رضوی ! سوال: امام  حسنؑ کی سخاوت اور جودوبخشش کے کلمے کیاخلیفہ حضرات نے بھی پڑھے؟     

مولوی فیضان علی ! جواب: اس سلسلے کا یہ بھی بہت مہم سوال ہے۔ میں آپکویہ بتاتاچلوں یہ خانداب بہت ہی خاندان علم و فضیلت ہے:ایک روزحضرت عثمان مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی فقیرنے ان سے کچھ طلب کیا،حضرت عثمان نے اسے ۵ درہم دئیے اس فقیر نے کہا: ہمیں زیادہ کی ضرورت ہے کسی ایسے کے پاس بھیجوجو ہماری ضرورت کو پوراکردے حضرت عثمان نےامام حسنؑ ،امام حسین اورجناب عبد اللہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ان لوگوں کے پاس جائو اوراپنی حاجت طلب کرو ۔فقیر نے ان لوگوں کے پاس آکراپنی حاجت بیان کی امام حسنؑ نے فرمایا:صرف تین موقعوں پر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا جائز ہے؟خون کی دیت گردن پر باقی ہو جس کا ادا کرنا اختیار سے باہر ہو ۔....٢۔ قرض اتنا زیادہ ہو کہ اسے ادا نہیں کر سکتے .....٣۔ایسا فقیر جس کی حاجت روائی نہ کی گئی ہو ۔ اب بتائو ان تینوں میں سے کس مشکل میں گرفتار ہو؟      اس نے کہا: اتفاقاً انہیں تین میں سے ایک کا،امام حسنؑ نے اسے ۵۰ درہم عطا کئے اورامام حسینؑ  اپنے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے انتالیس دینار اور عبد اللہ بن جعفر نے اڑتالیس دینارعطا فرمائے،فقیر جب بھر پورحاجت پوری کرکے پلٹا تو اس کا گذرعثمان کے پاس سے ہوا،عثمان نے پوچھا :کیا ہوا؟۔ جواب دیا: تم سے میں نے مدد مانگی تم نے پوری کی لیکن تم نے رقم مانگنے کی وجہ نہیں پوچھی لیکن جب ان حضرات کے پاس پہونچا انہوں نے اس کے مصرف کے بارے میں سوال کیا اور ہم نے وجہ بتائی تو ان میں سے ہر ایک نے اس مقدار میں میری جھولی بھر دی ،عثمان کو کہنا پڑا: یہ خاندان صاحب کرامت اور فضیلت والا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے!۔

بے مثال سخاوت : مورخوں نے لکھا ہے کہ امام حسن کی سخاو ت بے نظیر تھی ہر ایک خاص و عام ان کے در سے جھولی بھر کے جاتا تھا حضرت نے اپنی عمر میں دو بار تمام مال کو راہ خدا میں لٹایا اور تین بار اپنے مال و دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جس کا آدھا حصہ خود کے لئے رکھا اور آدھا اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔

مولوی کرار حسین رضوی! سوال: دوسرے امام امام حسنؑ کی سخاوت اورجھولی بھرنے کے کسی اورطریقے پرروشنی ڈالیں ؟

مولوی فیضان علی !جواب: دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام کے اس عمل پہ بہت ساری کتابیں شاہدہیں مگرتنگی وقت کی خاطرانکے انوکھے اندازکوبھی پیش کررہاہوں۔ مددکا منفرد انداز:ویسے تو یہ فیاض گھرانہ ہے لیکن اس میں بھی حضرت کی مدد کا ایک نیا انداز تھا کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہ ہوا حضرت اس کی جھولی یا خود بھرتے تھے یا دوسروں کی طرف راہنمائی کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک روز فقیر آیا اور مدد مانگی اتفاقاً اس روز حضرت کے پاس درہم و دینار نہیں تھے لہٰذا وقتی طور پر شرم محسوس کی اورفقیر سے کہا: میں تم کو ایسے شخص کے پاس بھیج رہا ہوں جہاں سے اپنی مراد پا لو گے ۔یاد رکھو آج کے دن خلیفہ کی بیٹی دنیا سے گذر گئی اور خلیفہ عزادار ہے ابھی کسی نے بھی اسے پرسہ نہیں دیا ہے ۔ تم خلیفہ کے پاس جائو اور جیسے میں کہوں اسی طرح پرسہ دینا۔ اس نے پوچھا کس طرح؟ امام  نے فرمایا :جب تم خلیفہ کے پاس پہونچنا تو کہنا : ''الحمد للّہ الذی سترھا بجلوسک علی قبرھا و لا ھتکھا بجلوسھا علی قبرک'''' تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے تمہاری بیٹی کو اٹھایا اور قبرمیں دفن ہوئی تو کم از کم باپ کا سایہ تو اسے ملا لیکن اگر بر عکس ہوتا تو تیری بیٹی دربدر ہو جاتی ''فقیر نے ایسا ہی کہا ان جملوں نے خلیفہ پر ایسا اثر کیا کہ حکم دیا اسے انعامات دیئے جائیں ،پھر خلیفہ نے اس سے پوچھا : کیایہ جملے تیرے اپنے ہیں؟ فقیر نے کہا: نہیں مجھے حسن بن علیؑ نے سکھایا ہے ۔ خلیفہ نے کہا سچ کہتے ہو ان کے منھ سے فصیح اور شیریں باتوں کا چشمہ پھول ہیں۔

مولوی کرار حسین رضوی! سوال: یہ واقعات توشیعی کتب میں کثرت سے ملتے ہیں کیااہل سنت کی کتابوں کےحوالے بھی پیش کرسکتے ہیں؟  مولوی فیضان علی !جواب: ضروربالضرور،ہم نے جوحوزہ علمیہ آیۃ اللہ بھیک پور ،بہارمیں ۹سالہ زندگی جوگزاری ہے اسمیں  تاریخی کتب میں ایک کتاب سیرہ پیشوایان ہے جومہدی پیشوائی صاحب کی اعلیٰ درجہ کی کتاب میں جسکا  ۱۵سال قبل اس حوزے کے موسس حجۃالاسلام والمسلمین سید شمع محمد رضوی نے ترجمہ کیااسمیں اسکے حوالے جات بھی پائے جاتے ہیں جویہاں پربھی ذکر کئے دیتاہوں۔ اہل تشیع کی کتابیں " (۱: شریف القرشی باقر حیاة الامام الحسن ،ج١،ص ٣٠٢ )(٢: مجلسی ،بحار الانوار،ج٤٣،ص ٣٣٣ ) اہل تسنن کی کتابیں " (۱:ابن اثیر اسد الغابة فی معرفة الصحابة:ج٢،ص ١٠) (۲:ابن حجر عسقلانی ، الاصابة فی تمییز الصحابہ ،ج١،ص ٣٢٨،)(۳:تاریخ الخلفائ، ص١٨٩) ۴:سیوطی ،تاریخ خلفاء ،ص١٩٠۔۔۔(۵:تاریخ یعقوبی،ص ٢١٥)۔۔۔۔(۶:سبط ابن جوزی تذکرة الخواص ،ص١٩٦)۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں معصومین (ع) کی ولادت پر پرسش و پاسخ کا سلسلہ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .