۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
رسول میر

حوزہ/سرزمین امن و محبت بلتستان میں عیسائیت کو پروان چڑھانے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں،اس سلسلے میں بلتستان کواردو سے تعلق رکھنے والے نوجوان تجزیہ کار اور قلمکار رسول میر کا ایک تحقیقی مقالہ پیش خدمت ہے۔

تحریر: رسول میر

حوزہ نیوز ایجنسی تاریخ کا طالب علم ہوں اور کواردو سے تعلق ہے-تحقیق و تحریر کے شعبے سے وابستہ ہوں- اپنی تہذیب و ثقافت سے دلچسپی رکھتا ہوں- بلتی قوم کے عظیم ہیرو علی شیر خان انچن اور اپنے آباء و اجداد کے فن تعمیر کا عظیم شاہکار کواردو پھلی پر شب خون مارنے کے صلیبی عزائم دیکھ کر پریشان تھا لیکن آج دوران مطالعہ تاریخ جموں کے مصنف حشمت اللہ خان کی زبان سے کواردو کے عالیشان ستون کا ذکر سنا تو بلتستان یونیورسٹی کے چانسلر اور ٹیم کی غیر تحقیقی رویہ سے نالاں جذبات نے تجسس کا روپ دھار لیا اور یہ تجسس مجھے  تاریخ کی سنگلاخ اور خاردار گھاٹیوں میں دھکیلتا چلا گیا- بمشکل پولولو کی ریاست سے مقپون خاندان کی حکومت تک چینیوں,ترکیوں , تبتیوں , مغلوں اور ڈوگروں کے ہاتھوں  تاراج شدہ بلتی یول کی بچی کچی تاریخ سے اخذ شدہ کچھ نایاب واقعات و حادثات کے تناظر میں موجودہ پھلی کے متعلق کچھ حقائق سامنے لانے میں کامیاب ہوا۔
منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم موجودہ پھلی کے اردگرد انسانی آبادی کی ابتداء سے لیکر آج تک رونما ہونے والی جغرافیائی ,سیاسی , جنگی , سماجی, فنی اور مذہبی تحولات کا پوری دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں تاکہ تاریخ , شواہد اور حقائق کی بنیاد پر اس کراس(پھلی) کی حقیقت واضح ہوجائے۔
جس پھلی (Phali) یعنی سر ستون کو صلیب قرار دیا جا رہا ہے اس کے ساتھ انسانی آبادی کی ابتداء کو دیومالاٸی  عہد کی ایک ہستی براق میور چو (Braq Mayor cho) سے منسوب کی جاتی ہے جس نے کواردو بلق نق کو آباد  کیا-( 1 )
اس کراس کے ساتھ علی شیر خان انچن (1588تا 1625) اور اس کے فرزند عبداللہ خان (1627 تا 1637) کے دور حکومت میں کواردو کے موجودہ گاؤں ناظم آباد کے ساتھ والی پہاڑی پر ایک دفاعی قلعہ تعمیر ہوا مقامی روایت کے مطابق جسے مقپون فرمان روا, سیر و تفریح , شکار اور پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے لہٰذا یہ "شکار قلعہ" کے نام سے مشہور ہوا- شہنشاہ ہند شاہ جہاں  کے درباری مورخ ملا محمد کمبوہ نے اپنی کتاب "جہاں نامہ" میں فتح تبت کے ضمن میں اس قلعے کا بھی ذکر کیا ہے ( 2) 
اس قلعے کو  مقامی لوگ بلق نق کھر (Blaq Naq Khar) کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ جس پہاڑی پر یہ قلعہ تعمیر کیا تھا اس کا رنگ کالا ہے- یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں کے لئے آج بھی برنق کا نام استعمال کرتے ہیں جو اصل میں بلق نق (Black Rock) ہے۔

بلق نق کھر سے اوپر والی پہاڑی کو آج بھی لوگ حوّا آستانہ (Shrine of Hawwa)  کے نام سے یاد کرتے ہیں- اس سے یہ ثاثر ملتا ہے کہ قلعے کے ساتھ کسی سیدہ یا شہزادی کا مقبرہ موجود تھا- جسے امتداد زمانہ نے طاق نسیاں کا شکار کردیا ہے- اس زمانے میں آفات سماوی و ارضی سے حفاظت اور باعث خیر وبرکت کے لئے اہم مقامات پہ سادات کی تدفین کا رواج عام تھا- جیساکہ علی شیر خان انچن نے کھرپوچو کے  اوپر معنوی تسکین کے لئے ایک سید کو دفن کیا تھا- (3)
حواہ آستانہ سے اوپر  دامن کوہ میں ایک چھوٹی آبادی مونیکی کے نام سے موجود ہے جو غالباً بلق نق کھر سے تعلق رکھنے والے مون یعنی موسیقاروں کے لئے آباد کیا ہوگا جو علی شیر خان انچن کی ملکیت  تھی جسے اس نے کواردو شنگیل خاندان کے کسی بزرگ کو عطا کیا تھا ان کے بقول علی شیر خان انچن کی طرف سے عطا شدہ تانبے کا پروانہ اب بھی اس خاندان کے پاس موجود ہے۔

برنق گاؤں 1722 سے لیکر 1727 تک سازشوں کا مرکز رہا ہے کیونکہ اس دور میں شگر کے راجہ اعظم خان کی بیوی سکردو کے راجہ رفیع خان کی بیٹی اور راجہ سکردو سلطان مراد کی بہن فخرالنساء یہاں پہ رہائش پذیر تھیں- فخرالنساء کے شوہر اعظم خان نے اپنے برادر نسبتی راجہ سکردو سلطان مراد کو دعوت کے بہانے بلاکر دریائے شگر میں غرق کرکے سکردو پہ قابض ہوگئے تو فخرالنساء نے اپنے بھائی کے قتل اور آبائی حکومت کی تاراجی سے دلبرداشتہ ہوکر اعظم خان سے علٰحیدگی  اختیار کی اور کواردو بلق نق کو حق مہر میں لیا اور یہاں رہائش پذیر ہوکر اپنے شوہر سے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی سازشوں میں مصروف ہوگئی۔ ( 4)
اعظم خان جب لداخ کی طرف سے ہونے والے حملوں کے سدباب میں مصروف تھے- فخرالنساء نے بلق نق سے جاکر اپنے بیٹے کے اتالیق ولی پا  کے توسط سے شگر میں بغاوت کرادی اور اپنے شوہر کو قتل کرکے بھائی کے تاراج شدہ حکومت کو دوبارہ بحال کردی- راجہ سکردو شاہ مراد کے فرزند ظفر خان کو قید سے نکال کر سکردو کا راجہ بنایا-  اعظم خان کے سوتیلا بھائی علی خان کو نگر کی جلاوطنی سے واپس لاکر شگر کا راجہ بنایا- ولی پا کو علی خان کا وزیر اور اپنے بیٹے سلیمان خان کو جانشین مقرر کردیا- چونکہ سلیمان بہت چھوٹا تھا لہذا بلق نق کواردو سے اپنے فرزند سلیمان خان کو لیکر دبارہ کھر پوچو سکردو میں مقیم ہوگئی۔ (5)
جب سلیمان سن بلوغت کو پہنچا تو ولی اسے لیکر شگر کی طرف روانہ ہوا راستے میں ولی کو سلیمان کے عزائم کا پتہ چلا کہ وہ اپنے والد کے قاتلوں سے انتقام لینا چاہتاہے- چونکہ اس کے والد کے قتل میں خود اس کی ماں اور شیر پدر ولی کا مرکزی کردار تھا لہذا ولی نے مبینہ کراس والی گاؤں سترانگ دوخمو کے مقام پر سلیمان کو قتل کرکے وہیں دفن دیا- (6) شہزادے کی قبر کا نشان پچیس سال پہلے تک  کوسومبور اور سترانلونگما کے درمیان موجود تھا جسے لوگ کسی بزرگ ہستی کی قبر سمجھتے تھے۔

کڑوا (مقپون آباد) 
حوا آستانہ اور بلق نق کھر کے پہلو میں موجودہ کراس کے ساتھ کونے میں واقع گاؤں کو  کروا (Krwa) کہتے ہیں جو اصل میں ٹروا (Trwa) ہے کیونکہ بلتی میں کونے کو ٹُرُوْ کہاجاتا ہے- بزرگوں کے بقول اس جگہے کو ٹرو , ٹروپونگ یعنی کونے میں بسنے والے اور پھر آجکل ٹروا کے نام سے پکارا جاتاہے- ماضی میں اس گاؤں کی آبادی بالکل پہاڑ کے ساتھ کونے میں واقع تھی- مقپون خاندان کی ایک شاخ آج بھی یہاں آباد ہے۔

سترانگ دوخمو ( گلشن آباد) 
جس گاؤں میں یہ کراس واقع ہے اسے پرانے دور میں سترانگ دوخمو ( Strang Dokhmoo) یعنی تنگ گزر گاہ کہا جاتا تھا- کیونکہ اس دور میں دریا کا بہاؤ اور پہاڑ کے بیچ مختصر فاصلے کی وجہ سے حملہ آوروں کو آسانی سے روکا جاسکتا تھا- علی شیر خان اور عبدال خان کے دور حکومت میں جب شکار قلعہ یعنی بلق نق کھر تعمیر ہوا تو اس کی حفاظت اور شگر کی طرف سے ہونے والے حملوں کے تدارک اور نگرانی کے لئے اس تنگ گزرگاہ پہ محافظین کو آباد کیا گیا- بعد میں مقپون خاندان کے زوال اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے کچھ محافظین نے  مشرق کی جانب  واقع ذرخیز زمین کوسومبور ( Kosumbor) کو آباد کیا تو کچھ محافظین مغرب کی جانب  مقپون خاندان کی متروکہ زمین پہ آباد ہوگئے جو آج بھی مقپون آباد کے نام سے آباد ہے- جبکہ کوسومبور جس تیزی سے آباد ہوا اسی تیزی سے سیلاب کی نذر ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گیا- اس طوفان سے بچ جانے والے لوگ برنق , سرفہ رنگا اور سندوس میں آباد ہوگئے- جبکہ سترانگ دوخمو ,ٹروا اور بلق نق اپنے تاریخی آثار کے ساتھ آج بھی گلشن آباد , مقپون آباد اور ناظم آباد کے نام سے آباد ہیں- ان تینوں گاؤں کو آجکل سرکاری کاغذات میں موضع سترانگ لونگما کہا جاتاہے۔
دیوما لاٸی عہد کی عظیم ہستی برق میور چو سے لیکر آخری بدھسٹ بادشاہ سلطان بخا کا سید شمس الدین عراقی کے ہاتھوں اسلام قبول کرنے  تک جین مت , بدھ مت ,بون مت اور  لاماازم کے آثار بلتستان میں جابجا ملتے ہیں- لیکن بلتستان میں کہیں  بھی  عیسائیت کے حوالے سے کوئی ایک تاریخی حوالہ , آثار اور روایت موجود نہیں ہے- تاریخی قرآئن یہی بتاتے ہیں کہ کواردو کے عوام اسی وقت مکتب اہلبیت سے منسلک تھے جب سید شمس الدین عراقی کے ہاتھوں آخری بدھسٹ بادشاہ سلطان بخا نے مکتب امامیہ قبول کیا تھا- 
سید علی طوسی کی آمد کے بعد یہ علاقہ مکتب اہلبیت کا مرکز بنا بالخصوص سترانگلونگما کے لئے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اپو اکبر کا بیٹا ابوالحسن جو حصول علم کے سلسلے میں کشمیر گیا ہوا تھا- سید علی طوسی نے بحیثیت  مترجم اپنے ساتھ لے آئےاور کواردو جامع مسجد میں مجالس و محافل کا ذمہ دار بنایا- یہ ذمہ داری  آج بھی یہ خاندان بأحسن و خوبی انجام دے رہا ہے،لہٰذا  یہاں صلیب کا نشان ڈھونڈنا اندھیرے  میں کالی بلی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔
البتہ انگریزوں کے زیر اثر ڈوگروں نے یہاں قبضہ جمالیا تو ڈوگروں کے ایما پر قیام پاکستان سے پہلے کچھ عیساٸی مبلغین بلتستان پہنچے جو سکردو شہر تک محدود رہا- انہوں نے بلتی زبان سیکھنے کی کوشش کیں اور سرزمین بلتستان کے معروف شاعر جناب بوا شاہ عباس سے بائبل کا بلتی ترجمہ کروایا- لیکن عوام کی طرف سے ان کو کوئی پذیرائی نہیں ملی کیونکہ ان مشینریوں میں عورتیں بھی شامل تھیں- ایک بزرگ کے بقول عورت اور وہ بھی بدکار ہو تو اسے کوئی دین لینا بلتی تہذیب و ثقافت کے رو سے ناممکن تھا لہٰذا  یہاں صلیب سازی وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر محض ایک مضحکہ خیز دعویٰ کے علاوہ کچھ بھی نہیں- اب اگر یہ صلیب نہیں تو کیا ہے- اسے کب بنایا, کیسے بنایا اور کس نے بنایا, کیوں بنایا؟- کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی نوادرات ہیں؟ اگر تھیں تو کون کون سی تھیں اور کہاں گئی تاریخی حوالہ جات کے ساتھ مکمل حقائق ملاحضہ فرمائے۔

علی شیر خان انچن (1588تا 1625) اور اس کا فرزند عبداللہ خان (1627 تا 1637) کا دور بلتی فن تعمیر کے عروج کا دور تھا- ان کے دور حکومت میں کواردو بلق نق کھر سے لیکر ہنزہ کے التت و بلتت فورٹ تک بے شمار قلعے تعمیر کئے گئے اسی طرح قلعوں کی کثرت تعمیر کی وجہ سے بلتستان کا علاقہ کرتخشہ کا نام کھرمنگ پڑ گیا۔ (7)
جب انچن کا پوتا مراد خان المعروف شاہ مراد ( 1656  تا  1673) کو حکومت ملی  تو اس نے دربار مغلیہ اور کشمیر سے بڑھئی , سنگ تراش , لوہار , زرگر ,موچی , جولاہے اور دیگر  کاریگروں کو سکردو لاکر آباد کیا۔ (8)
انہی سنگ تراشوں کی بدولت بلتستان میں تعمیرات میں سنگ مرمر کے استعمال اور تراش خراش کا سلسلہ شروع ہوا- اس دور میں مقپون پایہ تخت کے قریب ترین اور بہترین سنگ مر مر کواردو میں پایاجاتا تھا-  ہماری تحقیق کے مطابق یہی دور تھا جب شکار قلعہ یعنی بلق نق کھر کواردو  کے ساتھ سترانگ دوخمو ( Strang Dokhmoo) کا گاؤں ستون ,سر ستون (پھلی), چوکھٹ ,سنگ مرمر کے محراب اور سنگ مرمر کے دیگر مصنوعات کا مرکز بن گیا-  اس کی شہرت انچن کی ریاست یعنی لداخ سے چترال تک پھیل  گٸی- آج بھی ماہرین کے مطابق کواردو کے مقام پہ سلسلہ قراقرم کے بطن میں سنگ مر مر کے بڑے  ذخاٸر موجود ہیں- بزرگوں کے بقول پہلے سطح زمین پہ ہی سنگ مر مر کے بڑے زخائر۔ذخاٸر موجود تھے۔

اس فن کا زوال مقپون خاندان کے زوال سے مربوط ہے- کواردو بلق نق کھر تاریخ میں دو دفعہ تاراج ہوگیا۔ پہلی دفعہ علی شیر خان کے وفات کے بعد جب مغل بادشاہ شاہ جہاں کے حکم سے 1047 ہجری  بمطابق  1637 عیسوی میں کشمیر کے صبیدار ظفر خان نے بلتستان پہ حملہ کیا تو راجہ سکردو  عبدال خان نے اپنی اہل و عیال اور سونے جواہرات کو شکار قلعہ یعنی بلق نق کھر میں لاکر چھپایا- کیونکہ پایہ تخت سے دور ,نگاہوں سے اوجھل ,دریا پار , بھیج میں دلدلی ریگستان اور  پہاڑی کے اوپر واقع ہونے کی وجہ سے ناقابل تسخیر اور محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا- لیکن عبدال خان کا پندرہ سالہ شہزادہ دولت عبدال کے فرار ہونے کی وجہ سے بلق نق کھر تاراج ہوگیا سونے جواہرات لوٹ لئے گئے اور شہزادیاں اسیر ہوگٸیں  رعایا نے مدد نہ کی کیونکہ سب عبدال خان (میزوس) کے مظالم سے نالاں تھے۔ (9)

دوسری دفعہ بلق نق کھر کی تاراجی اس وقت ہوا جب   1712 عیسوی میں مقپون خاندان کے فرمانروا محمد رفیع خان تخت نشین ہوا۔ رفیع خان کی نااہلی سے  علی شیر خان انچن کی چترال سے لیکر لداخ تک پھیلی ہوئی عظیم ریاست کا زوال شروع ہوگیا 
طوائف الملکی کے اس عالم میں سکردو کے ماتحت سارے راجگان نے بغاوت کردی- حد یہ کہ خپلو کا راجہ حاتم خان( 1660 تا 1727) نے لداخ کا راجہ نیمہ نمگیل ( Nima Namgil) کے تعاون سے سکردو پہ حملہ کیا۔ مقابلہ ناممکن نظر آیا تو راجہ سکردو رفیع خان اپنے اہل و عیال اور وزراء کے ساتھ کھرپوچو میں قلعہ بند ہوگیا۔ 
نیمہ نمگیل اور حاتم خان کی فوج جب کھرپوچو پر رسائی میں ناکام ہوگیا تو سکردو سے ملحقہ دیہاتوں سمیت  کواردو اور شکار قلعہ یعنی بلق نق کھر  کو تباہ کرکے فتح کی علامت کے طور پر کواردو کے عالی شان ستون ,  سکردو کا سنگے ستاغو, (Sangy Stagoo) یعنی شیر دروازہ , مون چو کا آبری سرنا (Renowed Music  instrument) اور تھیور شغرن کا خوبصورت آرائیشی پتھر ساتھ لے گئے۔ (10)
بعض لوگ ان اشیاء کو منتقلی کو ڈوگرہ عہد سے منسوب کرتے ہیں۔ 
بہرحال کواردو سترانگ دوخمو کی سنگ تراشی اور ستونوں کی شہرت پوری ریاست میں پھیلی ہوئی تھی- اسی لئے نیمہ نمگل (Nima Namgil) اور حاتم خان کو یقین دلانے کے لئے  فتح کی علامت کے طور پر باقی مشہور نوادرات کے ساتھ کواردو کے سنگ مرمر کے  عالی شان ستون کا بھی انتخاب کیا گیا۔

مقپون خاندان کے زوال کے بعد کمزور راجاؤں کو شکار قلعہ اور اس سے منسلک سنگ مرمر کی مصنوعات  کو دوبارہ بحال کرنے کی ہمت اور ضرورت محسوس نہیں ہوئی- ستم بالائے ستم ڈوگروں کے ایک سو سات سالہ دور استبداد نے بلتی فنون کی تار و پود بکھیر کر رکھ دیا یوں یہ فن زوال کا شکار ہوگیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اس فن پہ کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے عوام کی رحم کرم پہ چھوڑدیا گیا- 27 ستمبر 2021 بروز پیر کو میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ موضوع سترانگلونگما کے تینوں گاؤں برنق , کڑوا اور سترانگ دوخمو سمیت کوسومبور۔{کسمبور} کے تباہ شدہ تاریخی وادی  کا تحقیقی اور تاریخی نکتہ نگاہ سے تفصیلی دورہ کیا اور چند عمر رسیدہ شخصیات کا انٹریو بھی لیا- یہاں کے پشتنی باشندوں کے بقول موجودہ سر ستون کے ساتھ کچھ سالوں پہلے تک سنگ مرمر کے ستون , محراب , کستن , دروازہ , جائے نماز , محراب,  اور سنگ مرمر کے بنے ہوئے دیگر اشیاء بھی پڑی ہوئی تھیں۔
تاریخ کے ورق گردانی , بزرگان سے انٹریو اور زمینی حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس پھلی کے ارگرد ہماری مشاہدات کچھ یوں ہے۔

کھردن:  (Khardun Fort)
موجودہ پھلی کے ساتھ ہی یکدم ابھری ہوئی ایک چوٹی ہے- آثار بتا رہا ہے کہ شگر کی طرفسے برنق کھر پہ ہونے والے حملوں کی تدارک کے لئے متعین محافظین کے لئے اس چوٹی پر  ایک چھوٹا محل تعمیر کیاگیا تھا- اس کی دلیل یہ  ہے کہ آج بھی اس چوٹی کے سامنے ہموار زمین کے لئے  لوگ کھردن (یعنی محل کے سامنے)  کا نام استعمال کرتے ہیں- اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں مضبوط مورچے یا محل موجود  تھا- اس چوٹی پر آگ جلا کر برگے نالہ , سدپر نالہ اور کھرپوچو پر تعینات افواج کو ہنگامی حالات سے باخبر کیا جاتا تھا- گھردن کے ارگرد مورچوں کے نشان اب بھی باقی ہے جو کم و بیش تین سو سال پرانا لگ رہا ہے۔

لقپہ سکمفی مسجد (Laqpa Skamfi Masjid)
یعنی وہ مسجد جس کی وجہ سے ہاتھ سوکھ  گٸے- مقامی روایات کے مطابق کسی بدھسٹ نے اس مسجد کو گرانے کی کوشش کی تھی جس کو 1603 عیسوی میں وارد بلتستان ہونے کے فوراً بعد سید علی طوسی نے یہاں تعمیر کیا تھا کیونکہ آپ کے مترجم ابوالحسن کا تعلق اسی گاؤں سے تھا- میری تحقیق کے مطابق یہ بدھسٹ کوئی عام بندہ نہیں تھا کیونکہ کوئی عام بندہ مسلمانوں کی آبادی میں گھس کر مسجد گرانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ غالباً یہ اسی دور کا واقعہ جب مقپون راجہ رفیع خان  (1712عیسوی) تخت نشین تھا- خپلو کے راجہ حاتم خان  راجہ لداخ نیمہ نمگل کے سرداروں نے سکردو کو تاراج کیا اور بقول مولوی حشمت اللہ کواردو کے معروف ستون لینے یہاں آئے اور  اس مسجد کو شہید کرنے کی کشش کی- کہا جاتا ہے کہ بدھ سردار نے مسجد کے ستوں پر جب کلہاڑے سے وار کرنا شروع کیا تو موقع پہ ہی اس کا ہاتھ سوکھ گیا آج تک یہ مسجد بدھی لقپا سکمفی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔وہ ستون آج بھی جامع مسجد کے سامنے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ جس پر کلہاڑیوں کے نشان کا میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔

بدھ ستراقفی لومبو (Budh Straqfi Lombo)
یعنی وہ نالہ جس میں بدھ کو جلایاتھا- سترانگلونگما سے مشرق کی طرف ایک نالہ آج تک بدھ سترقفی لومبو کے نام سے معروف ہے- 

کوسومبور (Kosombor)
یہ ایک تباہ شدہ وادی ہے- جسے آبادی میں اضافے کی وجہ سے بلق نق کھر کے محافظین نے آباد کیا تھا- یہ وادی جس تیزی سے آباد ہوئی اسی تیزی کے ساتھ ایک ناگہانی آفت کا نذر ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گیا- اب اس پراسرار وادی کے آخری ثبوت کے طور پر توت کے تین دیو قامت درخت  موجود ہیں - ہماری ٹیم نے یہاں سے پرانی دیواروں کے آثار اور مٹی کے برتنوں کے آثار دریافت کیا ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے۔ جدید طریقوں سے ان برتنوں کا عمر معلوم کریں تو کوسومبور کی تباہی کی اصل تاریخ سامنے آسکتی ہے۔

سنمسول بہو (Snamsul Baho)
موجودہ پھلی سے اوپر ایک دہانے میں دو بڑی غاریں ہیں ۔ سنمسول بلتی میں ناک اور بہو غار کو  کہتے ہیں ناک سے مشابہ ہونے کی وجہ سے اسے سنمسول بہو کہا جاتاہے۔ یہاں سے لوگ نمک نکالتے تھے جسے سہ پیو کہاجاتاہے۔

اپوے دوکسا: (Apoye Doksa)
اس پھلی کے ساتھ مشرق کی جانب آج بھی زبان زد عام و خاص اپوئے دوکسہ یعنی جد امجد کے قیام گاہ کے نام سے پہاڑی کے بھیچ میں ایک غار ہے- مقامی روایت کے مطابق یہاں سترانگ دوخمو کے آبادکار اپو اکبر کی رہائش گاہ تھی- تاریخی شواہد بھی اس بات کی تائید کرتی ہے- 

اپوسی ہرکنگ (Aposi Hurkong)
کھردن کے بالکل نیچے اپوسی ہرکنگ نامی ایک کول ہے- یہ اصل میں اپوے دوکسی ہرکنک یعنی جد کے قیام گاہ کا نہر  تھا کثرت استعمال کی وجہ سے اپوسی ہرکنک بن گیا- اپو اکبر اور ان کے رہائش گاہ سے  منصوب یہ نہر یہاں آبادی کی ابتداء سے ہی مسلمان آباد ہونے کی زندہ دلیل ہے-

چونے کا بٹھہ:
یہ وہ اژدھا ہے جس نے یہاں کے تمام سربستہ رازوں کو نگل لیا اور بلتی فن تعمیر کے عظیم نمونوں کو جلا کر چونے کی راکھ میں تبدیل کردیا- علاقے کی سب سے عمر رسیدہ شخصیت جناب کاچو رفیع خان کے بقول علی رہبر نامی ایک گلگتی ٹھیکہ دار نے سرکار سے ہم آہنگی کے ساتھ یہاں پہ چونے کا بٹھہ لگایا- جس نے انتہائی بے دردی سے ارگرد کے پتھروں سمیت قیمتی نوادرات کو جلا کر چونے میں تبدیل کردیا- قومی نوادرات سے عدم آشنائی کی وجہ سے مقامی لوگوں نے بھی قلیل مزدوری کے عوض اس کام میں بھرپور حصہ لیا- 

سنگ مرمر کا دروازہ:
جس کی لمبائی پانچ فٹ ,چوڑائی دوفٹ اور موٹائی ایک بالشت کے برابر تھا- بلتی فن تعمیر کا یہ شاہکار بھی ایک مقامی باشندہ حاجی غلام علی کے بقول اسی بٹھے کا نذر  گیا جبکہ ایک اور بزرگ حاجی ابراہیم نے بھی اس کی تصدیق کی-

سنگ مرمر کا محراب:
عینی شاہدین کے بقول اپوسی ہرکنک کے ساتھ سنگ مرمر کا تراشیدہ ایک خوبصورت محراب بھی دیوار میں نصب تھا- اس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ پریاں  یہاں سے سر نکال کر بال دھوتی ہیں- افسوس اس خوبصورت محراب کو بھی توڑ کر چونا بنا دیا-

سنگ مرمر کا جائے نماز
انٹریو کے دوران کئی بزگان نے اس بات کی تائید کی کہ یہاں پہ جانماز کے نام سے زمین پر ایک بڑا پتھر تراش خراش کر رکھا ہوا تھا جس پہ لوگ نماز پڑھتے تھے- آج بھی بلتستان میں یہ روایت عام ہے کہ پہاڑوں ,چراگاہوں اور عارضی قیام گاہوں پہ جہاں مسجد نہ ہو وہاں کسی پتھر یا پھر ہموار زمین کو جانماز کے طور پر مخصوص کرتے ہیں- سنگ مرمر کا یہ جانماز اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں پہ سنگ تراشی کرنے والے سارے معمار مسلمان تھے- سنگ مرمر کا یہ  جانماز بھی توڑ کر امام بارگاہ سترانگلونما کے بنیادوں میں استعمال کیا گیا-

سنگ مرمر کا لوح:
لوگوں کے بقول سنگ مرمر کا ایک لوح آج بھی موجود ہے جس پہ مارخور کے نقش کندہ ہے اور ساتھ میں کچھ عبارت لکھی ہوئی ہے جو الٹی حروف تہجی کے مانند ہے- ماہرین علم الہندسہ اس پہ تحقیق کریں تو ممکن ہے کہ کوئی متروکہ رسم الخط کا انکشاف ہوجائے- مجھے تلاش بسیار کے باوجود وہ لوح نہیں ملا ایک شخص کے بقول وہ اب بھی موجود ہے- 

سنگ مر مر کے ستون:
اس کراس کے فلی ہونے کے بارے میں سب سے مضبوط دلیل وہی ہے جسے میں نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ یہاں کے ستون سازی پوری انچن کی ریاست میں معروف تھا- اس تعمیراتی مرکز کے پیداوار اسی دور میں مختلف محلات میں استعمال ہوئے- نیما نمگل جیسے حملہ آوروں  نے لوٹا پھر بھی  نصف صدی قبل تک یہاں پہ اتنے سارے نوادرات پڑے ہوئے تھے- ان میں سے سب سے اہم سنگ مر مر کا ستون ہے جو ٹوٹنے کی وجہ سے وہیں چھوڑ دیا گیا تھا- دو ٹکروں میں تقسیم تھا ایک ٹکرا آٹھ فٹ اور دوسرا چار فٹ کا تھا- حاجی ابراہیم کے بقول اس نے کافی کوشش کی تھی کہ اسے لڑھ کا کر نیچے پھینک دیں تاکہ کھر کی تعمیرات میں استعمال کروں لیکن ستون اتنا بھاری تھا کہ وہ اکیلا یہ کام انجام نہیں دے سکا- بعد میں اسے توڑ کر قاسم پی مسجد اور ناظم آباد مسجد میں استعمال کیا گیا-

سنگ مرمر کا کستن (Kastan)
کستن یعنی ستون کا چوکھٹ جس پر ستون کو کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ زمین میں دھنس نہ جائے- عینی شاہدین کے بقول یہاں پر چالیس سال قبل تک کئی کستن پڑے ہوئے تھے جنہیں انتہائی نفاست اور خوبصورتی سے تراشا گیا تھا- 
ایک مقامی باشندہ حاجی ابراہیم کہتے ہیں جب ہم چھوٹے تھے اس وقت کواردو کے معروف شخصیت استاد الاساتید ماسٹر نقی مرحوم ایک سرکاری آفیسر لے آئے اور دو کستن وہ لے گئے- موضوع سترانلونگما کی معروف شخصیت کاچو رفیع خان نے اپنے انٹریو میں کہا کہ آج سے پینتیس سال قبل  سکردو کے معروف پولوکھلاڑی اور دندان ساز وزیر محمد علی کواردو آئے اور خود ان کو لیکر اس جگہے کا دورہ کیا موجودہ پھلی مٹی میں دھنسا ہوا تھا- ساتھ میں دو خوبصورت کستن تھے جسے وزیر محمد علی ساتھ لے آئے رات کاچو رفیع خان کے گھر میں قیام کیا اور صبح دو کستن لے کر وزیر محمد علی سکردو چلے گئے-
پھلی (Phali)
کستن یعنی ستون کی چوکھٹ اور ستون کی حقیقت آپ نے جان لی اب آئے اس سرستون کے حقائق جان لیتے ہیں- عینی شاہدین کے بقول موجودہ سرستون کے ساتھ ایک اور سرستون توٹا ہوا تھا جسے باقی نوادرات کے ساتھ چونا بنایاگیا- موجودہ سرستون اس بٹھے سے تھوڑا دور مٹی میں الٹا دھنسا ہوا تھا جسے گاؤں کے نوجوانوں نے دو سال قبل  روزی عید نامی بلتی ڈرامے کی ویڈیو شوٹنگ کے دوران تصویر بنانے کے لئے زمین سے نکال کر سیدھا کیا-
پس مستند تاریخی حوالہ جات , عینی شاہدین کی گواہی اور زمینی حقائق کے مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ نہ آسمان سے اتری ہوئی صلیب ہے نہ کوئی مذہبی علامت بلکہ یہ بلتی قوم کی فن تعمیر کا عظیم شاہکار ہے-اس فن کے نمونے کچھ عرصہ پہلے تک یہیں پہ موجود تھے جو وقت کے ظالم تھپیڑوں اور عوام کی لاپروائی کی وجہ سے ضائع ہوگیا اور سر ستون بہت زیادہ بھاری ہونے کی وجہ سے عوام کی دست درازی سے بچ گیا- 

حوالہ جات: 
1-  تاریخ جموں حشمت اللہ خاں صفحہ 448 مطبوعہ 1936 ناشر دیری ناگ پبلشر میر پور آزاد کشمیر 

2- جہاں نامہ , ملا محمد کمبوہ جلسہ دہم , صفحہ نمبر 307 تلخیص و تیزیب ,ممتاز لیاقت 

3- تاریخ بلتستان یوسف حسین آبادی صفحہ 98

4- نقوش بلتستان محمد حسن حسرت صفحہ 17 ناشر لوک ورثہ پاکستان

5- بلتستان تاریخ کے آئینے میں- صفحہ 86  بنات گل آفریدی مترجم ڈاکٹر عظمٰی سلیم

6-  تاریخ جموں حشمت اللہ خاں صفحہ 448 مطبوعہ 1936 ناشر دیری ناگ پبلشر میر پور آزاد کشمیر 
7- تاریخ بلتستان یوسف حسین آبادی صفحہ 99 

8-نقوش بلتستان ناشر لوک ورثہ بلتستان صفحہ 16

9-شاہ جہاں نامہ- ملا محمد کمبوہ

10- تاریخ جموں مولوی حشمت اللہ خان لکھنوی صفحہ 570

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .