۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
سویرا بتول 

حوزہ/ راہِ عشقِ حسین علیہ السلام بہت دشوار ہے یہاں انسان کی دلیری اور شجاعت اور شہادت جیسی سعادت کے حصول کے لیے طوق و سلاسل کی سختیاں ہیں،کوڑوں کی سزاٸیں سہنا ہیں،الزام تراشی اور نام نہاد مصلحتوں کو برداشت کرنا ہے۔

تحریر: سویرا بتول 

حوزہ نیوز ایجنسی فرقہ کےمعنی جماعت یاگروہ کے ہیں۔ یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ کرنا/جداہوناہے۔ دوسرےالفاظ میں فرقہ کواس طرح بیان کیاجاسکتاہےکہ فرقہ کسی بھی مذہب، جماعت (سیاسی یا مذہبی) یا گروپ کاذیلی حصہ ہوتاہےجواپنےالگ خیالات ونظریات کی وجہ سےالگ جاناجاتاہے۔یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ وطنِ عزیز میں عرصہ دراز سے اُن طاقتوں کو تقویت فراہم کی جارہی ہے جو فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہیں۔

اہل سنت دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن سپاہ صحابہ تھا۔ یہ جماعت ١٩٤٤ء میں امرتسر میں قائم ہونے والی "تنظیم اہلسنت" نامی شیعہ مخالف جماعت کا تسلسل ہے جو ١٩٨٤ء میں دیوبندی عالم مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد انجمن سپاہ صحابہ کے نئے نام سے ١٩٨٥ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں سامنے آئی۔جب جنرل پرویز مشرف نے جنوریاہل سنت دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن سپاہ صحابہ تھا۔ یہ جماعت ١٩٤٤ء میں امرتسر میں قائم ہونے والی "تنظیم اہلسنت" نامی شیعہ مخالف جماعت کا تسلسل ہے جو ١٩٨٤ء میں دیوبندی عالم مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد انجمن سپاہ صحابہ کے نئے نام سے ١٩٨٥ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں سامنے آئی۔جب جنرل پرویز مشرف نے جنوری ٢٠٠٢ء میں سپاہ صحابہ پر پابندی عائد کی تو اس جماعت کا نام بدل کر ملت اسلامیہ پاکستان رکھ دیا گیا اور پھر بعد میں جماعت کانام بدل کر اھلسنت والجماعت رکھا گیا۔اس جماعت کے قیام کا مقصد کھلے عام اہلِ تشیع کی نسل کشی کرنا اور فرقہ وارانہ فسادات کو فروغ دینا تھا۔


پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی پہلی واردات ١٩٥٠ ء میں وادئ کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں ہوئی، جو ١٩٤٨ء میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور مال غنیمت سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے۔ ١٩٥٦ء میں وادئ کرم دوبارہ حملوں کا نشانہ بنی۔ پنجاب میں شیعہ کشی کی پہلی واردات ١٩٥٧ میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں ہوئی جہاں جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا گویا علی اور حسین کہنے والوں پر عرصہ درزا سے زمین تنگ کی گٸی اور یہ سلسلہ بدستور آج بھی جاری ہے۔

اعظم طارق مذہبی و سیاسی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کا سربراہ تھا اور پاکستان میں اپنے وقت کے طاقتور ترین راہنماؤں میں سے ایک شمار کیا جاتا تھا۔اِس کے علاوہ ایک متنازع شخصیت کے طور پر بھی مشہور ہوا۔ فرقہ واریت پھیلانے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے الزامات کی زد میں متعدد مقدمات زیر اپیل رہے۔ شیعہ ذرائع اعظم طارق کو 1997ء تا 2003ء سینکڑوں اہل تشیع مسلمانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اوراس پر شیعہ نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کے درجنوں مقدمات درج تھے۔گویا علی کا شیعہ ہونا ایک ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا اور چن چن کر محبانِ اہلِبیت کو مارا گیا۔

دینِ اسلام بھاٸی چارے اور محبت پھیلانے کا دین ہے۔ یہ امن اور محبت باٹنے کا درس دیتا ہے۔مگر ہمیں کسی بھی حالت میں اِس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایمان کے لیے فکروفراست کے ساتھ ساتھ خون کی حرارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اِس ضرورت کو شہید محرم علی نے بروقت محسوس کیا۔شہید اس بات سے باخوبی آگاہ تھے کہ حق کی کامیابی کے لیے ایثاروقربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ریاست اپنے فراٸض احسن طریقےسے انجام نہ دے تو مکتبِ تشیع اپنے اعتقادات اور نظریات کا تحفظ کرنا باخوبی جانتی ہے۔شہید اس بات سے آشنا تھےکہ جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہاں شہادت حتمی ہے۔ 

راہِ عشقِ حسین علیہ السلام بہت دشوار ہے یہاں انسان کی دلیری اور شجاعت اور شہادت جیسی سعادت کے حصول کے لیے طوق و سلاسل کی سختیاں ہیں،کوڑوں کی سزاٸیں سہنا ہیں،الزام تراشی اور نام نہاد مصلحتوں کو برداشت کرنا ہے۔شہید ناصر صفوی اور محرم علی جیسے شہدإ مکتبِ اہلِ بیت کا افتخار ہیں ۔دار پر چڑھ کر مثلِ میثمِ طمارنعرہ حیدری کی گونج میں لقاٸے الہی کا جام پیتے ہیں۔یہی ایثار کا پیکراں اور مسلسل جذبہ تشیع کی اصل ہے۔وہ تشیع ج تشیع علوی ہے۔شیعت وہ تحریک ہے جو تاریخ کے ہر دور میں ظلم و فریب کے دل کو دہلا دینےکا موجب رہی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر ہمارے بنیادی عقاٸد پر حرف آیا تو ابھی محرم علی جیسے جری و شجاع موجود ہیں جو اپنے اعتقادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔

ٹکڑے ٹکڑے بم دھماکوں نے کیا تمہیں 
ہم عمل سے اب ظہورکا سبب بنے 
انتقامِ کربلا کے واسطے اٹھے 
ہر یزیدِ وقت کو یہاں پہ مات ہو 
اے شہیدو! اے شہیدو ! تم حیات ہو 
اے شہیدو! تم وفا کی کاٸنات ہو

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .