۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 377155
8 فروری 2022 - 23:13
کتاب: تین منٹ قیامت میں 

حوزہ/ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد احساس ہوا کہ صرف خالص اعمال ہی  ہمیں عالمِ برزخ میں پریشانی سے نکال سکتے ہیں۔ہم فکر کریں کہ اپنی زندگی میں اپنے امور کو کس قدرفقط رضاٸے الہی کے لیے انجام دیا؟فقط خدا کی رضایت کے لیے کتنے قدامات کیے؟

تبصرہ نگار: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسیچند عرصہ قبل ایک کتاب دوست شخصيت کی جانب سے ایک کتاب تحفے میں ملی۔یوں تو بسا اوقات کتب کے تحائف وصول ہوتے رہتے ہیں مگر یہ کتاب بہت سی وجوہات کی بناء پر کٸی عرصہ میرے بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل پر موجود رہی۔کافی عرصہ اس کتاب کو خود سے جدا کرنا ایک مشکل امر محسوس ہوتا رہا۔اس کتاب کا نام "تین منٹ قیامت میں "ہے جسکے بانی شہید مدافع حرم جواد محمدی ہیں۔اس کتاب کے مولف کے کردار میں مجھے اپنی شخصيت کا عکس دیکھاٸی دیا۔ایک ایسا شخص جو ہمہ وقت اپنی شہادت کی دعا کرتا رہتا ہے، شب روز گریہ کرنا اوراپنی شہادت کے لیے اہل بیت ع سے توسل کرنا،گویا شہادت زندگی کی دیرینہ خواھش ٹھہری مگر راہِ شہادت کس قدر پُرخطر ہے اور کن کٹھن مراحل سے گزر کر انسان اس ابدی مقام کو حاصل کرتاہے، اِس کا اندازہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد باخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ایک خواب سے کیاجاسکتا ہے گویا خواب حجت نہیں ہے مگر تاثیر رکھتا ہے۔اس کتاب کے راوی کے ایک مخلص اور بایمان دوست جو کہ مدافع حرم ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی کا چہلم تھا،ہال مجمع سے بھراہواتھا مقرر اسٹیج پر جانا چاہ رہے تھے۔میں نے حیرت سے دیکھا: مقرر حاج قاسم خود ہیں!
مجھے یاد آیا کہ حاج قاسم شہید ہوچکے ہیں۔میں آگے بڑھا اور میں نے کہا آپ یہاں کیا کر رہے؟آپ کی شہادت کس طرح ہوٸی؟
کہنےلگے: بہت آسانی سے،میرے سامنے ایک خوشبودار پھول لیکر آٸے اور اسی وقت امیر المومنین علی ع کی خدمت میں پہنچ گیا۔
میں نے پوچھا: ہم بھی شہید ہوسکتے ہیں؟
کہنے لگے:جی ہاں! آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔
میں نے کہا: وہاں حساب کتاب کس طرح ہوتا ہے؟
جلدی میں تھے کہنے لگے: تین منٹ قیامت میں پڑھی ہے؟ حساب کتاب اُسی طرح ہوتا ہے۔

اس کتاب کے مطالعے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ خدا کے ہاں معاملات کس قدر سخت ہیں۔ہمارے ہر عمل کا حساب ہورہا ہے اور وہ ذات کس قدر باریک بین ہے جو ہمارے ہر فعل پر نظر رکھے ہوٸے ہے۔اس کتاب کے مولف نے موت کے نزدیک کا تجربہ کیا جسے Near Death Experience یا NDE کہتے ہیں اور چند لمحوں میں عالمِ برزخ کا سفر طے کیا،عالمِ برزخ کے معاملات اور خدا کے ہاں حساب کتاب کے عمل کا قریب سے مشاہد کیا۔NDE کوٸی انہونی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ڈاکٹر ریمنڈموڈی کی کتاب حیات بعد از حیات Life After Life میں ایک ایسی عورت کا ذکر کیا گیا ہے جوبچپن سے نابینا تھی ،اُس نے موت کے قریب کے تجربہ کے بعد آپریشن تھیٹر میں ہونے والے تمام معاملات کو من و عن بیان کیا۔ڈاکٹر کینتھ رنگ اورشیرون کوپر نے اپنی تحقیات کے نتیجہ کو کتاب ”ذہن کی نظریں“میں بیان کرتے ہوٸے اُن افراد کی نشاندہی کی ہے جنہوں نےموت کے قریب کے تجربہ کے بعد کے حقائق کو بیان کیا ہے۔ڈاکٹر پم وین لومل جو ماہر امراضِ قلب ہیں وہ بھی NDE کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکے۔گویا ثابت ہوا عالم برزخ کا قریب سے مشاہدہ کرنا اور بعد از اُن واقعات کو بیان کرنا ممکنات میں سے ہے۔کتاب کے مولف شہید مدافع حرم رقمطراز ہیں کہ میں ہر وقت اپنی موت کی دعا کیا کرتا تھا، ایک عمر محاذ پہ گزاری تھی،شہادت کے رتبہ پر فاٸز ہونا میری دیرینہ خواھش تھی لیکن سوچتا تھا کہ میں کہاں اور شہادت کہاں؟جب شب و روز گریہ کرکے اپنی شہادت طلب کیا کرتا تھا تو ایک دن جنابِ عزراٸیل علیہ السلام کو اپنے روبرو پایا۔ عالمِ برزخ کی سختی کو قریب سے دیکھا۔پہلا سوال واجب نمازوں کا تھا جیسا کہ حدیثِ پیغمبرِ اسلام ﷺ ہے پہلی چیز جس کے بارے میں سوال کیا جاٸے گا وہ پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔

کتاب کے مولف کے بقول میں بچپن سے ہی اول وقت نماز کا پابند تھا اور خوش تھا کہ نماز کی اداٸیگی کے حوالے سے سوال و جواب کا سلسلہ باخوبی انجام پایا کہ اچانک دیکھا کہ میرےتمام اعمال میرے نامہ اعمال سے مٹتے جارہے ہیں اِس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنے کسی عزیز کی غیبت کی تھی جس کی بنإ پر میری نیکیاں اُس کے نامہ اعمال میں درج کی گٸی۔میرے اکثر اعمال ریاکاری اور خلوص نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہوچکے تھے۔اپنے ایک دینی دوست کا مذاق اڑانے کی وجہ سے میری تمام نیکیاں مٹادی گٸی۔مجھے علم ہوا کہ وہ گناہ جنہیں ہم بہت ہلکا گمان کرتے ہیں وہ یہاں سنگینی کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں۔کیا ہم تصور کر سکتےہیں کہ تھوڑی دیر غیبت کرنے کی بنإ پر ہمارے نیک اعمال کسی کے نامہ اعمال میں درج کیے جاٸیں؟یہ سب میرے لیے نہایت حیران کن تھا۔وہ نیک اعمال جن کا اجر حاصل کرنے کے لیے میں نے اتنی محنت کی تھی وہ فہرست سے کم ہوتے جارہے تھے،مجھےشدید روحانی اذیت کا احساس ہوا۔اُس دن مجھے علم ہوا کہ جب اعمال میں ریاکاری کی بو آنےشروع ہوجاٸےتو پروردگار کےہاں اُن کی کوٸی قدر نہیں رہتی۔اعمال کی قبولیت کا انحصار نیتوں پر ہیں نا کہ ریاکاری سے مزین طویل سجدوں میں۔میری دوسالہ نمازیں جو جماعت کے ساتھ تھیں،ایک مومن کو ایذا دینے کی وجہ سےمجھ سے واپس لے لی گٸیں،ایک بے جا مذاق کی وجہ سے میری دوسالہ عبادت کسی اورکو دینا پڑی۔

وہ اعمال جو عالم برزخ میں آسانی کا باعث بنے اُن میں اول وقت نماز،والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا،نمازِشب،صلہ رحمی،رضاٸے الہی کے لیے امور کی انجام دہی،خوفِ خدا سے گریہ کرنا،صدقہ و خیرات،قرآن سے انسیت اور ہر لحظہ حق الناس کے ساتھ حق النفس کی طرف متوجہ رہنا شامل ہے۔وہ اعمال جو عالمِ برزخ میں شدید مشکلات کا باعث بنے اُن میں غیبت،تہمت،ریاکاری،نامحرم پرنگاہ،ایذا رساٸی اور حقوق الناس میں کوتاہی شامل ہیں۔

اس کتاب کے مطالعے کے بعد میرا شہید اور شہادت کے بارے میں نظریہ بدل گیا گوکہ اس موضوع پر قلم اٹھاتے ایک مدت گزر گٸی ہے،ہمہ وقت شہادت کی دعا زیرِ لب رہتی تھی، اس قدر شہادت کے لیے گریہ کیا کہ کبھی گمان ہوتا کہ ہم کہاں اور شہادت کہاں؟ مگر اس کتاب میں شہادت کے حوالے سے ایک لطیف نکتہ ملا وہ یہ کہ شہید ہونے کے لیے شہید جیسی زندگی بسر کرنا مہم ہے بقول شہید القدس شرطِ شہید شدن،شہید بودن است(شہید کا یہ جملہ تفصیلااپنے گزشتہ کالم میں بیان کیا گیا ہے)۔گویا شہادت کی توفیق ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی،خالص اور مخلص انسان جو تمام دنیاوی وابستگیوں سے دل کو دور کرلے،شہادت کے لاٸق بنتا ہے۔شہادت حادثہ نہیں بلکہ انتخاب ہے ایک دانشمدانہ انتخاب جس کے لیے اپنے دل کو اُن تمام گرہوں سے آزاد کرنا پڑتا ہے جو دنیاوی خواہشات سے بندھی ہوٸی ہوں۔

اس کتاب کے مطالعہ کے بعد احساس ہوا کہ صرف خالص اعمال ہی ہمیں عالمِ برزخ میں پریشانی سے نکال سکتے ہیں۔ہم فکر کریں کہ اپنی زندگی میں اپنے امور کو کس قدرفقط رضاٸے الہی کے لیے انجام دیا؟فقط خدا کی رضایت کے لیے کتنے قدامات کیے؟ شہید ابراہیم ہمت اکثر کہا کرتے تھےہمارا چلنا،پھرنا،ہنسنا،بولنا سب خدا کے لیے ہونا چاہیے حتی کہ ہم قلم سے کاغذپر جو کچھ بھی لکھتے ہیں وہ صرف خدا کے لیے ہو۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد علم ہوا کہ خدا کے ہاں نامحرم سے روابط کی کس قدر سخت سزا معین کی گٸی ہے۔ایک نگاہ نامحرم انسان کوروحانی طور پر سو سال پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ایک نگاہ ِ حرام انسان کی شہادت کو چھ ماہ موخر کر دیتی ہے۔وہ گناہ جنہیں ہم گناہ تصور نہیں کرتے یا ہلکا سمجھتے ہیں جیسے غیبت،اپنے مومن بھاٸی کو ایذا دینا،کسی کا مزاح اڑانا،نامحرم سے روابط رکھنا،نگاہِ حرام یا تہمت لگانا یہ سب گناہِ کبیرہ میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں انجام دینے سے عالمِ برزخ میں کٸی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہمارے ہاں خالہ زاد، ماموں زاد بھاٸی جنہیں ہم کزن کہتے ہیں سے مزاح کرنا ایک عام بات ہے اور اگر کوٸی ٹوک دے تو فورا کہا جاتا ہے کہ جی! یہ تو ہمارے بھاٸی ہیں اب بھاٸی سے کیسا پردہ؟ یا پھر بھاٸیوں سے مذاق تو ہوتا رہتا ہے مگر خدا کی شریعت کے احکام اٹل ہیں جنہیں خدا نے آپ کا بھاٸی بنایا ہے بس وہ محرم ہیں۔نامحرم کی طرف نگاہ کرنا اور اس سے رابطہ رکھناانسان کی روحانی ترقی میں بڑی مشکلات پیدا کرتا ہے۔حدیث معصوم ہے کہ نامحرم کی طرف نگاہ کرنا شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔المختصر یہ کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں یہ ہم جیسے خطاکاروں کو گناہوں کے دلدل سے نکالنے کا بہترین نسخہ ہے ۔اس دعا کے ساتھ اجازت طلب کرتے ہیں کہ پرودگار بحق سیدہ ع ہمیں تعلماتِ محمدﷺ و آلِ محمد ع عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .