۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ملت جعفریہ پاکستان کی ایک زینبی کردار خاتون جو شہید ہوئی

حوزہ/ شہید علی ناصر صفوی اور ان کی اہلیہ پروین بتول جیسی جیسی عظیم شخصیت اور ان جیسا عظیم مرتبہ شہادت حاصل کرنے میں کسی بھی فرد کو بہت وقت اور مشقت اور تکلیفیں برداشت کر نا ہو نگی۔

تحریر: سیدہ ارم زہرا

"راستوں کی ویرانیوں اور جلتی ہوئی دھوپ سے ڈرنے والے کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔" شہید علی ناصر صفوی
شہید علی ناصر صفوی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں بہت کم بیان کیا جاتا ہے اور بہت کم معلومات ہیں۔ وہ ایک ایسے گمنام شہید ہیں جو تاریخ کا ایک ایسا سر بستہ راز ہے جس میں آنے والی نسلوں کے لیے بہت سے راز پوشیدہ ہیں۔ شہید علی ناصر صفوی ایک ایسی شخصیت تھے جو سادگی اور پرہیز گاری کا ایک عمدہ نمونہ تھی، وہ باکردار و باعمل انسان تھے۔ شہید کی گاڑی کے آڈیو پلئیر میں اکثر نوحے اور تلاوت چلتے رہتے اور شہید تمام راستے گریان نظر آتے، جب آڈیو پلئیر بند ہوتا تو شہید زیادہ تر خاموش رہتے اور فکر کرتے رہتے۔ شہید ناصر صفوی وہ انسان تھے جس کے دل میں ملت کا درد تھا ایسے انسان کے گھر میں بھلا ضرورت کی چند چیزوں کے سوا کیا ملتا، ایک دفعہ کا زکر ہے کہ کچھ دوست گھر آئے تو شہید پانی کے جگ کے ساتھ ایک گلاس اور ایک چائے کا کپ لے آئے، دوست نے پوچھا ناصر بھائی گھر میں کوئی اور گلاس نہیں رکھا کیا۔۔؟ تو شہید بولے ہماری ضرورت دو ہی گلاس ہیں، ایک آپ کی بھابی سے گر کر ٹوٹ چکا تو دوسرا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
شہید ناصر صفوی کی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے بہت سے لوگ ان کی ہمسر کی خدمات و کوششوں کو بہت سے لوگ فراموش کر دیتے ہیں۔ شہیدہ بتول شہیدہ بتول کو امامیہ کمیونٹی کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو مکتب حسینی کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے شوہر کے ہمراہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوئیں ۔
شہیدہ بتول نے اپنی زندگی میں علم و تدریس اور دینی بحث و مباحثہ کو جاری و ساری رکھا۔ ان کی روزمرہ کی زندگی میں توضیح المسائل ،دینی و عالمی آگاہی اور آئمہ معصومین کے سوانح حیات مبارکہ پہ درس و تدریس ھوا کرتا تھا جس میں نیک ازدواجی زندگی ،شوہر کے حقوق ،بچوں کی تربیت ،رشتہ داروں کے حقوق و فرائض ،حجاب ،تقوی و پرہیز گاری ،خلوص و ایمانداری پر نہایت زور دیا کرتی تھیں۔ شہیدہ بتول کے دور حیات میں پاکستانی خواتین زیادہ برسر پیکار نہیں تھیں اس دور میں شہیدہ بتول کی مصروفیات درس و تدریس ھوا کرتی تھیں۔ یہ ان کا جذبہ ہی تھا کہ انکے شوہر شہید ناصر علی صفوی ان کی تربیت کیا کرتے تھے اور انہیں اپنا ہمراز بنایا تھا ۔ باقاعدہ طور پر شہیدہ بتول بھی اپنے شوہر کی مکمل تصویر اور ہمراز بن چکی تھیں۔
شہیدہ بتول نے 25 نومبر 2000ھ کی شب ایک بجے چاروں طرف سے گولیوں کی آوازیں سنیں۔ شہیدہ بتول نے بلکل بی بی سیدہ فاطمہ الزھراء س کی سیرت پر عمل کرتے ھوئے آگے بڑھ کر حاملہ حالت میں اپنے سینے پر گولی کھائی اور دروازے کے پس پشت اپنے شوہر کا دفاع کرتے ھوئے اپنی بی بی سیدہ کونین فاطمہ الزھراء س کی سنت پر عمل کیا۔۔۔
اب کچھ دیر اس خاتون کی جدو جہد پر غور کریں۔ ہر وقت دہشت و تنہائی کا خوف، ہر وقت موت کا خوف، قیدو بند کا اندیشہ، مالی مشکلات کو بھی صبر و استقامت ،تحمل و بردباری ،قوت ایمانی سے طے کرنا۔ بحیثیت ایک خاتون ان سب کو برداشت کرنا بہت بڑا کام ہے۔ ایک خاتون کے لحاظ سے دیکھا تو خاتون مسلسل چاہتی ھے کہ وہ ضروریات زندگی ،پیار و محبت اور ایک بھرپور زندگی گزاریں۔ مگر یہاں ایسا نہیں تھا شہید ناصر صفوی کا دور شیعت کا وہ مظلوم ترین دور تھا جہاں جھنگ میں فرقہ ورانہ حالت اور عجیب ظلم و ستم کی کیفیت و فضا میں شہید علی ناصر صفوی نے نہایت شجاعت و دلیری سے ظلم کی فضا کو امن و امان میں تبدیل کیا ان سب حالات میں شہیدہ بتول نے اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا۔ شہیدہ بتول بننے میں جن منازل کو طے کرنا پڑتا ھے ان میں اپنے شوہر کے ہمراہ ہر قسم کے حال میں شانہ بشانہ کھڑا رہنا بھی ہے۔ شہید ناصر اور ان کی اہلیہ کی شہادت سے مزاحمتی خواتین کو ایک درس ملتا ہے کہ ایک خاتون چاہے تو بہت بڑے معرکے انجام دے سکتی ہے۔ شہید ناصر صفوی کی اہلیہ موجودہ دور کی خواتین کے مقابلہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھیں، نہ ہی ان کے پاس آج کی خواتین کی طرح وسائل میسر تھے ہاں مگر استقامت، بصیرت اور اطاعت گزاری یہ وہ عناصر ہیں کہ کوئی بھی خاتوں ان کو اپنا کر تاریخ رقم کرسکتی ہے۔ شہیدہ پروین بتول نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر زینبی جزبہ ہو تو ایک خاتون نہ صرف شہید پرور بن سکتی ہے بلکہ شہادت جیسے عظیم رتبہ کو حاصل بھی کر سکتی ہے۔
شہید علی ناصر صفوی اور ان کی اہلیہ پروین بتول جیسی جیسی عظیم شخصیت اور ان جیسا عظیم مرتبہ شہادت حاصل کرنے میں کسی بھی فرد کو بہت وقت اور مشقت اور تکلیفیں برداشت کر نا ہو نگی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .