تحریر: شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی। ہمارے معاشرے میں سماجی اداروں اور سماجی کارکنوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ سماجی کارکنوں نے معاشرے کو منظم و مستحکم کیا اور معتدل معاشرے کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا میں پاکستان کو بطور پرامن معاشرہ کہہ کر مثالیں دی جاتیں تھیں، سب اکٹھے رہا کرتے تھے، بچے من کے سچے ہوتے تھے، خاندان کے بڑے افراد چھوٹوں سے محبت و شفقت کرتے تھے، کسی انسان کو دوسرے انسان سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا، مذہبی رواداری و اعتدال پسندی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ پھر ایک وقت آیا پاکستان میں دہشتگردوں نے جنم لیا، شدت پسندی کی ترویج کی اور معاشرہ بکھرتا چلا گیا۔ جو کچھ تھا پاکستانی سماج سے چھن گیا۔ لوگ اب ایک دوسرے سے گلے ملنے سے ہچکچاتے ہیں، خالص جھوٹ یا خالص سچ کہنے سے ڈرتے ہیں، بچے من کے سچے نہیں رہے، سچ کہوں تو اب پاکستان کا نصاب بھی دہشتگردی کی جڑ بن چکا ہے۔ افسوس دہشتگردوں نے ہمارے سماج سے کیا کچھ چھین لیا۔ اب وہ مذہبی رواداری، اعتبار، محبت، نرمی نہ رہی دہشتگردوں نے پرامن ماحول کے ساتھ انسانیت کو بھی ہمارے معاشرے سے غائب کردیا۔
یہ ہر محب وطن پاکستانی کی آواز ہے کہ دہشتگرد ہمارے سماج کے دشمن ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان/سپاہ صحابہ کی تاریخ ڈھکی چھپی نہیں ہے، ہر محب وطن جانتا ہے کہ ان دہشتگردوں نے بم دھماکوں سے پاکستان کا جگر چھلنی کیا ہے۔ ناصرف شیعہ اہلبیت کی تکفیر کی بلکہ عام اہلسنت کو بھی بے گناہ موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ اسی طرح لشکر جھنگوی نے بھی پاکستان کے امن کو سبوتاژ کیا ہے، مارچ 2002 میں شیرٹن ہوٹل کراچی کے سامنے گیارہ فرانسیسی انجینئروں کی ہلاکت ہو یا اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں پروٹسٹنٹ چرچ پر حملہ، تفتیش کرنے والے اداروں نے لشکر جھنگوی کو ہی ملوث بتایا ہے۔ اگر اعظم طارق ملعون نے لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق کو سربراہ نہ بنایا ہوتا تو پاکستان میں کرکٹ کا عالمی بائیکاٹ نہ ہوتا جو 2009 میں ملک اسحاق نے سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے میں کیا۔
یہ اعظم طارق ہی تھا جس نے پاکستان میں دہشتگردی اور تکفیریت کی بنیاد رکھی۔ ملعون اعظم طارق کی فکر نے پاکستانی سماج کو بےانتہاء نقصان پہنچایا ہے، اگر آج اس کی اولاد کو لگام نہ ڈالی گئی تو تاریخ پھر دہرائی جائے گی۔ آج اس کی دہشتگرد اولاد سرعام برسی منانے جارہی ہے۔ حکومتی اداروں اور سماجی کارکنوں سے سوال ہے کیا پاکستان میں یہ وقت بھی آنا تھا کہ دہشتگردوں کی برسی منائی جائے گی؟ کہاں ہیں جو دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے؟ پرامن ماحول کو سبوتاژ کرنے میں کیا ان دہشتگردوں کا ہاتھ نہیں ہے؟ کیا اعظم طارق ملعون نے امام مھدی عج کی گستاخی اور شیعہ سنی کو کافر کہہ کر دہشتگردی کی بنیاد نہیں رکھی؟ اس دہشتگرد کی اولاد نے تو پورے پاکستان کی تکفیر کی ہے اور اعظم طارق کی موت کا ذمہ دار پاکستان اور حکومت وقت کو ٹھہرایا تھا۔ اب کیا ہوگیا ہے ؟ کیوں پاکستان کو دہشتگردی کا مرکز بنایا جارہا ہے؟ آخر حکومت ان دہشتگردوں کے سامنے اتنی لاچار و بے بس ہوچکی ہے کہ دہشتگردوں کے بغیر حکومت نہیں چل رہی ؟
معاشرے میں پھیلتی ہوئی دہشتگردی کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور معاشرے کے باشعور اور معتدل افراد کو پروموٹ کرے نہ کہ دہشتگردوں کی اولاد کو جو آج دہشتگردوں کی برسی منارہے ہیں۔
نوٹ: یہ لاکھوں محب وطن پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ یہ شہدائے آرمی پبلک سکول پشاور (APS) کے ننھے بچوں کی پکار ہے جو پاکستانی حکومت سے چیخ کر کہہ رہی ہے دہشتگردوں کو معاف کرنے کا حق کسی کو نہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔