۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا سید رضی زیدی

حوزہ/ جس کے پاس صبر نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے کیونکہ ایمان کی شناخت صبر سے ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی دہلی

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ الذی جعلنامن المتمسکین بولایة حضرت علی علیہ السلام والصلاة والسلام علی محمد وآلہ الطیبین الطاہرین اما بعد فقط قال امیرالمومنین علی علیہ السلام اوصِيكُمْ بِخَمْسٍ لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الْإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّهُ وَ لَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَهُ وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ وَ عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الْإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ وَ لَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَهُ وَ لَا فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَهُ .(نہج البلاغہ)

معاشروں کی بہت بڑی کمزوری اور خامی یہ ہے کہ لوگ اللہ کے بجائے لوگوں سے توقع اور امید رکھتے ہیں جبکہ کوئی شخص کسی کی امیدوں کو پورا نہیں کرسکتا، فقط اللہ کی ذات ہے جو اپنی مخلوق کی ضرورت کو پورا کرسکتی ہے لہذا محتاج مخلوق سے امید لگانا ناپسندیدہ اور غیر معقول عمل ہے۔ سماج میں لوگ گناہ کرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ لوگوں سے ڈرتے ہوئے ان کے ہر درست اور نادرست عمل کی تائید کرتے ہیں جبکہ انسان کو اللہ کے حکم کی نافرمانی سے ڈرنا چاہیے نہ کہ کسی ظالم یا کسی دوست اور عزیز سے تعلقات کے منقطع ہونے کا خوف کرنا چاہیے۔ معاشرے میں کم علم افراد سے جب کوئی سوال کیاجاتا ہے تو وہ اپنے عدم علم کے اظہار میں عار اور ننگ محسوس کرتے ہیں، بجائے یہ کہنے کے کہ میں نہیں جانتا نادرست جواب دینے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ یہ کہنا کہ میں نہیں جانتا نصف علم ہے۔ عدم علم کے اظہار سے سائل کسی دوسرے صاحب علم سے اپنے سوال کا جواب چاہے گا تو اس کو اپنے سوال کا درست جواب مل جائے گا اور اس عمل سے معاشرے میں نادرست معلومات کا سلسلہ ٹہر جائے گا جس سے سماج کو کارساز بنے میں مدد ملے گی۔ سماج اور معاشرے میں صبر و تحمل بہت کم دکھائی دیتا ہے جبکہ صبر سماج کو اچھا بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے معاشرے کو فتنہ، فساد، فسق و فجور اور بہت سی غیر اخلاقی حرکتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔اسلام میں صبر کو خاص اہمیت دی گئی ہے کیونکہ ایمان اور صبر کے درمیان جسم اور سر کی نسبت ہے یعنی ایمان کی شناخت صبر سے ہے جس طرح جسم کی پہچان سر سے ہوتی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ان خصلتوں کو اپنے کلام میں یوں بیان کرتے ہیں: أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الْإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّهُ وَ لَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَهُ وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْ‏ءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ وَ عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الْإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ وَ لَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَهُ وَ لَا فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَهُ .(نہج البلاغہ حکمت ٢۳) تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنگاؤ، اور سفر کی تکلیف کو برداشت کرو تو وہ اسی قابل ہو ں گی .تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ(نافرمانی) کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں، اور صبر و شکیبائی اختیار کر و کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے .اگر سر نہ ہوتو بدن بیکار ہے، یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں.

جس کے پاس صبر نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے کیونکہ ایمان کی شناخت صبر سے ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Ali IN 11:11 - 2022/03/13
    0 0
    جزاک اللہ خیرا الجزاء