۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے ، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام استاد شیخ یعقوب بشوی نے"سورہ مبارکہ انفطار کی آیت نمبر6 يَاأَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ"کو عنواں درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن میں ایک سو تین مرتبہ صبر کا ذکر ہوا ہے صبر کو اگر اخلاقیات میں دیکھے جس طرح عبادت میں سب سے برترین عبادت نماز ہے اسی طرح صفات اخلاقیہ میں جو سب سے برتر ہے وہ صبر ہے اسی وجہ سے ہمیں قرآن مجید میں اس کا بار بار تذکرہ ملتا ہے اور بار بار صابرین کے لئے بشارتیں اور خوشخبریاں دی جارہی ہیں اور صابرین سے خطاب کرتے ہوئے خدا نے ارشاد فرمایا:"ان اللہ مع الصابرین" صبر کا رتبہ اتنا بڑا ہے کہ خود اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےیعنی پروردگار کی معیت صابرین کو حاصل ہوتی ہے پس اس سے بڑھ کر کوئی تمغہ نہیں مل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ صبر ایک ایسا امر الہی ہے کہ پروردگار نے اپنے رسول(ص)کو جس طرح نماز کاحکم دیا اسی طرح اجتماعی امور میں صبر سے کام لینے کا حکم بھی دیا ہے اور قوت برداشت والے نبیوں کی طرح صبر کرو اس لئے کہ اجتماعی مسائل میں جو بھی آگے آجائیں اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی توقعات اس سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور معاشرے کے ہر فرد کی نگاہ اس معاشرتی امور میں مداخلت کرنے والے کی طرف ہے تو خدا نے جن کےلئے منصب ہدایت دیا اگر ان پر کسی قسم کے حملے ہوجائے، انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔

استاد بشوی نے مزید بتایا کہ اگر ہم صبر کرنے والے کی طاقت اور قوت کا اندازہ کرنا چاہیں تو پروردگار عالم سورہ مبارکہ انفال کی آیت نمبر 65 -66 میں پیغمبر اسلام (ص) کو مخاطب قرار دے کر صبر کے پھل اور صبر کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئےارشاد فرمارہا ہے" یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفًا مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِاٴَنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَفْقَھُونَ.
الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ وَعَلِمَ اٴَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ اٴَلْفٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِینَ" پیغمبر کو دستور ہے کہ مومنین کا ابھارے جھاد کےلئے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کےلئے چونکہ ہر زمانے کے مطابق دشمنوں سے لڑنے کا امر ہوتا ہے کبھی ممکن ہے دشمنوں سے لڑے تلوار کے ذریعے کبھی اسلحہ کے ذریعے اور کبھی دشمنوں سے لڑیں گے نظریات کے ذریعے آیڈیالوجی کے ذریعے آپ جہاں بینی جو توحیدی ہے اس کے ساتھ دشمنوں سے لڑیں گے تو لڑنے کے مختلف مصادیق ہیں لیکن پیغمبر کو دستور ہے کہ مومنین کو تیار کرو چونکہ رہبر الہی کا کام، معاشرے میں بیداری پیدا کرنا ہے جو لوگ اجتماعی امور سے واقف نہیں ہیں اور جو لوگ مقصد زندگی سے دور ہیں جنہیں زندگی کے مقصد کا علم نہیں ہے، الہی قیادت لوگوں کو اپنی طرف نہیں بلاتی، بلکہ "اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ " الہی قیادت معاشرے کو خدا کی طرف بلائے تو پھر معاشرہ الہی بن جائے گا چونکہ ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ اپنی طرف بلاتے ہے اسی وجہ سے ہم ناکام ہیں تو جو ظاہری طور پر ہمیں کوئی کامیابی ملے تو کامیابی نہیں ہے اس لئے کہ ہدف معین نہیں ہے اگر انسان معاشرے میں لوگوں کو اپنی طرف بلائے تو قرآن کی نگاہ میں یہ ایک منفی رول اور کردار ہے اس کی قرآن نفی کرتا ہے پس خداوند عالم امر کر رہا ہے کہ مومنین کو تیار کرے برانگیختہ کرے جہاد کےلئے اور مختلف محاذ جیسے فکری،ثقافتی،سماجی اور سیاسی محاذوں کی طرف مومنین کو بلائے۔

حجت الاسلام شیخ یعقوب بشوی نے قیادت الہی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ پروردگار عالم مومنین کےلئے ایک بہت بڑی خوشخبری دے رہا ہے چونکہ قیادت الہی مومنین کے ہاتھ میں ہے اسی لئے قیادت کی طرف متوجہ کر رہا ہے" یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَال" بلانے والا اگر الہی قیادت ہو تو کیا تبدیلی آئے گی  مومنین کی طاقت میں کتنا وزن پیدا ہوگا۔خداوند سورہ مبارکہ انفال کی 65ویں آیت میں یہی فرما رہا ہے"إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ" اگر ایمان والے بیس ہوں گے تو وہ دوسو بندوں پر جیت جائیں گے خدا یہ خبر دے رہا ہے کہ مومن کی معاشرے میں کیا طاقت ہے، چونکہ معاشرے میں قیادت الہی ہے تو دسو بندوں کو بیس بندے شکست دے سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے اندر صبر پایا جاتا ہو۔
 جاری ہے.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .