۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
نہج البلاغہ کی روشنی میں اسلامی معاشرہ کی منیجمنٹ کے اصول

حوزہ/ اسلامی معاشرے کے نظم و نسق اور انتظام کے لئے بنیادی طور لائق اور صالح قیادت اور انتظامیہ کا ہونا ضروری ہے، بغیر اس اصل کا لحاظ کئے ہوئے ایک اسلامی معاشرہ ترقی اور کامیابی اور اسلام کے مطلوبہ اہداف تک نہیں پہونچ سکتا ہے۔

تحریر: سید محمد .ر. موسوی

حوزہ نیوز ایجنسیقرآن کریم کے بعد نہج البلاغہ ایک ایسی کتاب ہے جو اندھیروں میں گمشدگان کو منزل مقصود کی ہدایت کرسکتی ہے اور انسانوں کو مختلف شعبوں میں کمال واقعی تک پہونچانے کا کام کرسکتی ہے، اس کتاب میں متعدد مقامات پر انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے بے مثال اصول و قوانین کو پیش کیا گیاہے ۔ جن میں سےایک اہم موضوع معاشرہ کا نظم و نسق اور اجتماعی زندگی کے انتظام کے طور طریقوں کا بیان ہے جن کو عمومی اور خصوصی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ عمومی اصول و قوانین اسلامی تعلیمات عقائد و اخلاق و احکام کی صورت میں بیان ہوئے ہیں اور خصوصی اصول و قوانین حکومتی و سیاسی امور اور معاشرہ و جامعہ کے نظم و نسق کے حوالے سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس مختصر مقالہ میں انتظام و مدیریت کےمفہوم کو بیان کرتے ہوئے اس کے عمومی اور خصوصی اصول و قوانین کو پیش کیا جارہا ہے۔

انتظامیہ و مدیریت کا مفہوم

مدیریت و انتظامیہ اصالتا عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کو منیجمنٹ اور فارسی زبان میں"کارگردانی" کے معنی میں آتا ہے ۔ مدیریت کے مفہوم و مطلب کو بیان کرنے میں دانشمندوں کے درمیان بہت سی مباحث کو پیش کیا گیا ہے جن کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مدیریت اور انتظامیہ معاشرہ کے منابع اور امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے معینہ اہداف تک پہونچنے کا نام ہے ۔ اس اعتبار سے اگر معاشرہ غیردینی و غیر الہی ہو تو اس کے منابع و امکانات اور معینہ اہداف بھی غیر دینی و غیر الہی ہونگے یعنی ایسے معاشرے میں دین و مذہب کے قوانین و اصول کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا اور دنیاوی و مادی اہداف تک پہونچنے کے لئے ہروسیلہ و ذریعہ کا استعمال جائز ہوگا اس لئے کہ غیر دینی معاشرے میں صرف زیادہ آسائش، بہتر زندگی ، زیادہ پیداوار، زیادہ آمدنی اور زیادہ سے زیادہ سود و منفعت کا خیال رکھا جاتا ہے چاہے اس راہ میں کسی بھی حد تک جایا جائےا ور دوسروں کے حقوق پائمال ہوجائیں یا کچھ بھی ہوجائے اس کا کوئی اثر نظر میں نہیں رکھا جاتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ غیر دینی اور مادی معاشرہ میں اہداف و مقاصد بھی غیر الہی اور مادی ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے اصول و قوانین بھی غیر الہی اور مادی ہوتے ہیں جو آپس میں متزاحم و متضاد بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن الہی معاشرہ میں جہاں اہداف بھی الہی ہوتے ہیں وہیں ان تک پہونچنے کے لئے منابع و امکانات میں الہی اصول و قوانین کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ چونکہ الہی قوانین و اصول کے پابند معاشرہ کا نام ہے لہذا یہاں اللہ کی قربت اور رضایت حاصل کرنا اصلی اور آخری ہدف ہوتا ہے ا وراسی کی روشنی میں بقیہ تمام ذیلی و جزئی اہداف و مقاصد کی تفسیر ہوتی ہے۔ اور یہ امر اس وقت میسر ہے جب معاشرہ کے انتظام اور اس کی مدیریت کے لئے الہی و اسلامی اصول کی پابندی کی جائے ۔

اسلامی معاشرہ کی انتظامیہ کے اصول

نہج البلاغہ کے متعدد خطبات اور خطوط اور کلمات قصار میں امام علیؑ نے ان اصول و قوانین کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے جن میں سے بعض اہم اور بنیادی اصول کو پیش کیا جارہا ہے۔

۱۔ لائق اور صالح قیادت و انتظامیہ
اسلامی معاشرہ کے نظم و نسق اور اس کی مدیریت کے سب سے پہلی شرط اور بنیادی اصل یہ ہے کہ معاشرہ یا حکومت کی باگ ڈور کو لائق اور باصلاحیت فرد کے ہاتھ میں رکھی جائے ۔ اور یہ لیاقت متعدد انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے حامل ہونے کی صورت میں پیدا ہوگی ۔ قیادت اور انتظامیہ کا پایا جانا ایک واضح اور روشن مسئلہ ہے اور اس کی ضرورت کو ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے چنانچہ ایک چھوٹے سے گھر کے انتظام کا مسئلہ ہو یا خاندان، قبیلہ یا جماعت کا معاملہ ہو ہر جگہ قیادت اور مدیریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں کسی بھی طرح کی سستی اور بدنظمی کے نتیجہ میں متعدد خرابیان وجود میں آجاتی ہیں۔ چنانچہ امیرالمومنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں: " لاَبُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِير بَرّ أَوْ فَاجِر ؛ لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا" ۔

لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ معاشرے یا جماعت کی قیادت اور مدیریت کے لئے قائد ، مدیر و منتظم یا حاکم کا لائق اور صالح ہونا بھی بہت ضروری ہے ورنہ معاشرہ اپنے اہداف سے دور یا منحرف ہوجائے گا۔ اور اسلامی معاشرے میں تو اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اسی وجہ سے قرآن و احادیث اور خود نہج البلاغہ میں اس بارے میں متعدد شرائط و خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں ایک مدیر ومنتظم یا قائد و حاکم میں ہونا ضروری ہے۔ یہاں آپؑ کے چندفرامین پیش کئے جارہے ہیں:

امیرالمومنینؑ قیادت و رہبری کے سلسلے میں ہر طرح کے حسب و نسب اورذاتی روابط کی نفی کرتے ہوے ایک مطلوبہ معاشرے کے لئے لائق اور صالح قائد اور رہبرکی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:"وَمَكَانُ الْقَيِّمِ بِالاَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ يَجْمَعُهُ وَيَضُمُّهُ: فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ وَذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعُ بِحَذَافِيرِهِ أَبَداً؛ ملک میں ایک رہبر کی جگہ اس محکم دھاگے کی مانند ہے جو مہروں کو متحد کر کے آپس میں ملاتی ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے گاتوسارا سلسلہ بکھر جائے گا اورپھرہرگز دوبارہ جمع نہیں ہوسکتا ہے" ۔

اسی طرح اس منصب کے لئے اپنی صلاحیت اور لیاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "و انما انا قطب الرحا تدور علیّ و انا بمکانی، فاذا فارقته استحار مدارها و اضطرب ثفالا؛ میں حکومت کی چکی کا محور ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے اگر میں اپنے محور سے دور ہوا تووہ اپنے مدار سے ڈگمگا جائے گی اور اسکی نیچے کی بساط بھی متزلزل ہوجائیگی" ۔
اسی طرح آپؑ اس بات کو واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ صالح اور اسلامی اعتبار سے مطلوبہ معاشرہ اس وقت وجود میں آسکتا ہے جب اس کا قائد، رہبر اور منتظم خود بھی صالح ہو: "فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلاَّ بِصَلاَحِ الْوُلاَةِ؛ رعایا کی اصلاح تب تک ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو" ۔
مذکورہ مطلب پیغمبراسلامﷺ کے ارشاد میں یوں بیان ہوا ہے کہ:

"لَا تَصْلُحُ الْإِمَامَةُ إِلَّا لِرَجُلٍ فِيهِ ثَلَاثُ خِصَالٍ وَرَعٌ يَحْجُزُهُ عَنْ مَعَاصِي اللَّهِ وَ حِلْمٌ يَمْلِكُ بِهِ غَضَبَهُ «1» وَ حُسْنُ الْوِلَايَةِ عَلَى مَنْ يَلِي حَتَّى يَكُونَ لَهُمْ كَالْوَالِدِ الرَّحِيمِ؛ امامت مناسب نہیں ہے مگر اس شخص کے لئے جس میں یہ تین خصلتیں پائی جاتی ہوں: ۱۔ تقویٰ اور ورع پایا جاتاہو جو اس کو اللہ کی نافرمانی سے روکتاہے؛ ۲۔ حلم جو اسے غصہ سےروکتا ہو؛ اور ۳۔ اپنے ماتحت افراد پر بہترین انداز میں حکومت کا سلیقہ جیسے ایک مہربان باپ اپنی اولاد کی سرپرستی کرتا ہے ۔
اسی طرح امام علیؑ دوسرے مقام پر اس مسئلہ کی اہمیت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

"لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ وَ لَا يُضَارِعُ وَ لَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ؛ حکم الہی کا نفاذ وہی کرسکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اور عاجزی و کمزوری کا اظہار نہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو" ۔

اسی طرح صالح قائد و رہبر کی پیروی سے ہی ایک اسلامی معاشرہ کو نجات مل سکتی ہے اس سلسلے میں فرماتے ہیں:"اتقوا الله و اطیعوا امامکم فان الرعیة الصالحة تنجو بالامام العادل، الا و ان الرعیة الفاجر تهلک بالامام الفاجر؛ خدا سے ڈرو اور اپنے رہبر اور پیشوا کی اطاعت کرو کیونکہ صالح قوم عادل پیشوا کے ذریعہ سے نجات پاتی ہے خبردار فاسد قوم فاسد پیشوا کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہے" ۔

مذکورہ مطالب کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے نظم و نسق اور انتظام کے لئے بنیادی طور لائق اور صالح قیادت اور انتظامیہ کا ہونا ضروری ہے، بغیر اس اصل کا لحاظ کئے ہوئے ایک اسلامی معاشرہ ترقی اور کامیابی اور اسلام کے مطلوبہ اہداف تک نہیں پہونچ سکتا ہے۔


منابع مہم

قرآن کریم
1) شریف الرضی، محمد بن حسین، و علی بن ابی طالب (ع)، امام اول. ۱۴۱۴. نهج البلاغة (صبحی صالح)،قم - ایران: مؤسسة دار الهجرة۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .