تحریر:سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی। دنیا کے مفکرین،ماہرین اور صاحب فکر و نظر اور دانشوروں کے افکار و نظریات کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں بلکہ اگر انسانی مسائل کا حل اس نظریے میں موجود ہے تو یہ انسانیت کا سرمایہ ہے، یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے آج تک فلسفی، تعلیمی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی و تربیتی اور فکری نظریات سے بشریت استفادہ کرتی آئی ہے۔ جس کی واضح مثال ان مفکرین کی کتابوں و نظریات مختلف زبانوں میں ترجمہ اور ان پر تحقیقی اداروں میں ریسرچ ہے۔ جس کے ذریعے ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
اسلامی مفکرین چاہیے وہ کسی بھی ملک، مسلک یاخطے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے افکار بھی پوری امت کا سرمایہ ہے، جن سے مسلم اقوام کو استفادہ کرنا چاہیے۔ عالم اسلام کی بلند پایہ شخصیات ومصلحین جیسے سید جمال افغانی، سید ابولاعلی مودودی، سید قطب، سید حسن البنا، محمد عبدہ، امام خمینی، استاد مطہری، سید باقرالصدر سمیت سینکڑوں ایسے اسلامی شخصیات عالم اسلام کے گوشہ وکنار میں وجود میں آئیں ہیں کہ جن کے افکار سے ہر طبقہ نے استفادہ کیا۔
انہی اہم شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت آیت اللہ خامنہ ای ہیں، جنہوں نے اپنی جوانی کے آغاز سے ہی عالم اسلام کی تحریکوں اور اسلامی مفکرین کا مطالعہ کیا۔ خصوصا مصر اور برصغیر کی اسلامی تحریکوں اور استعمار کے خلاف ان کی جدوجہد اور قائدین سے آپ کو خصوصی دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے آج برصغیر کی آزادی میں مسلمانوں کے کردار اور اقبال بلند ستارہ شرق جیسے افکار کے ذریعے سے مسلمانوں میں بیداری کی کوشش کی۔ انقلاب اسلامی ایران کے اہم ستون کی حیثیت سے ہر قسم کی مشکلات کامقابلہ کیا،معاشرے میں آگاہی اور اسلامی بیداری کے ساتھ عملی طور پر سختیاں برداشت کیں اور انقلاب کی کامیابی کے بعد وزارت دفاع، صدر مملکت جیسے عہدوں سے ہوتے ہوئے رہبریت کا منصب آپ نے سنبھالا اور اس کے بعد سے ملک کی رہنمائی اور مختلف چیلنجز اور عالمی مسائل کے سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہےہیں۔
آپ ایک فقیہ، مفکر اور صاحب نظر شخصیت ہونے کے لحاظ سے مختلف میدانوں میں آپ کے نظریات، تجزئیے اور مؤقف انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جن سے آگاہی اہل علم ودانش کے لیے لازم وضروری ہے۔رہبر انقلاب کے نظریات اسلامی معاشرے اور امت مسلمہ کی سربلندی،ترقی وپیشرفت اور مسائل کے حل کے لئے انتہائی راہ گشا ہیں۔
اس حوالے سے مختلف حوالوں سے تحقیق اور گفتگو ہمارے لِے سودمند ہیں۔ مگر یہاں رہبر انقلاب کے ایک اہم بیان”بیانیہ گام دوم ” کے حوالے سے بحث کریں گے۔جوکہ انتہائی اہم ہے۔ لیکن ہمارہ معاشرہ اس بیانیہ کے حوالے سے اب تک آگاہ نہیں۔ یا اس کو فقط کسی ملک تک محدود سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ مسلم معاشروں کے مسائل کو حل کرنے کی بھر پورصلاحیت رکھتا ہے۔
رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کی چالیسویں سالگرہ کی مناسبت سے۲۲ بہمن سال ۱۳۹۷ بمطابق 5جمادی الثانی 1440ھ کو ایک بیانیہ جاری کیا۔ جس میں انقلاب کے اہداف،چالیس سالہ جدوجہد، مشکلات، کامیابی، اثرات و نتائج کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک اسلامی وترقی یافتہ مملکت کی تشکیل کے لیے نصب العین پیش کیاہے۔
اس بیان کا مخاطب کوئی خاص گروہ نہیں لیکن رہبر انقلاب نے صلاحیت،استعداد اور اہمیت کے پیش نظرجوانوں کو مخاطب قرار دیا ہے۔ اور بلند اہداف کی طرف پیش قدمی کے لئے سات بنیادی نکات کو خصوصی طور پر بیان کیاہے۔ جو کہ اسلامی جدید تمدن کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس بیانیہ کا مخاطب چونکہ ایرانی قوم تھا۔ جس نے چالیس سال جدوجہد کے بعد ایک اسلامی ریاست وحکومت کا کامیابی سے تجربہ کیا ہے۔ اور اس سلسلے کو مزید مضبوط انداز میں قائم ودائم رکھنا اور بہتری کی جانب اقدام کے لئے حالات کے تناظر میں یہی مناسب عمل تھا۔
گام دوم کا پس منظر:
انقلاب تبدیلی،تغیر اور ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانے کانام ہے۔ اور یہ معنی انقلاب برطانیہ کے بعد سیاسی،اجتماعی اور اقتصادی تحول میں استعمال ہونے لگا ہے۔ قرآن میں اجتماعی سیاسی تبدیلی کے حوالے سے تاریخ انبیا واضح نمونہ عمل ہیں جن کی زندگی کا اہم مقصد معاشرے میں ہمہ جہت تبدیلی تھی۔ انبیا کے اہداف کو مدنظر رکھیں. انبیا کے اہداف میں توحید وبندگی،عدالت کا قیام،آزادی، اسلامی حکومت کا قیام،تعلیم وتزکیہ ،اختلافات کاحل جیسے اہم مقاصد نمایاں طور پر نظرآتے ہیں۔یہ اہداف مختلف زمانوں کے تقاضوں اور اختلاف کے باوجود تمام انبیاء کا مشترکہ ہدف رہا ہے۔ پیغمبراکرم کی نبوت کے بعد ائمہ معصومین نے بھی انہی اہداف کے حصول کی کوششیں کیں۔ حفظ اصول اسلام، حقیقی مسلمانوں کی حفاظت، انحرافی گروہوں اور ان کے نظریات سے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا اور امت کے درمیان اخوت وبھائی چارگی ان کے نمایاں اہداف میں نظر آتے ہیں۔اسی کے تسلسل میں اگر انقلاب اسلامی کے رہبران خصوصا با نی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے فرامین کی جانب توجہ دیں تو یہی اہداف ان کے فرامین میں بھی نمایاں طور نظر آتا ہے۔رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ اسی مشن انبیاء وائمہ معصومین کے وارث ہیں جو قرآن واہل بیت کے دستورات وسیرت کی روشنی میں ایک توحیدی معاشرہ کے قیام میں کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کے مختلف موضوعات پر کتب، تقاریر، نصائح اور رہنمائی، مسلم امہ کے لئے راہ گشا ہیں۔آپ ایک عالمی سطح کے مفکر ہونے کے ساتھ قیادت و رہبری کے منصب پر فائز ہیں۔اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل ہیں، کہ ان افکار کو عملی طور پر نفاذ اور جامہ پہنانے کےلیے آپ میدان عمل میں بھی ہیں،لیکن گام دوم، انقلاب کے ماضی، حال اور مستقبل کے لئے ایک جامع انسائیکلو پیڈیا ہےجو امام خمینی اور رہبر انقلاب کے افکار و نظریات کا خلاصہ ہے جس میں انقلاب اسلامی کے ماضی، حال اور آئندہ کے بارے میں انتہائی جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور مستقبل کے لیے ہر طبقۂ زندگی خصوصا جوانوں کی ذمہ داریوں کو مشخص کرنے کے ساتھ جدید اسلامی تمدن کے لئے سات اہم نکات کو ملکی تعمیر و ترقی کے لیے کلیدی ضرورت کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو کسی بھی اسلامی معاشرے کی ترقی و پیشرفت کے لئے لازمی عنصر ہے۔
انقلاب اسلامی کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
1۔ انقلاب سے پہلے کا دور
2۔انقلاب کے بعد
3۔انقلاب کا مستقبل
اس بیانیہ میں ان اہم موضوعات کی جانب اشارہ کیا ہے۔
1۔فلسفہ، مبانی و نظریۂ انقلاب اسلامی
2۔ انقلاب اسلامی کی خصوصیات
3۔ انقلاب اسلامی کے اثرات و نتاِئج
4۔انقلاب کا نصب العین اور مستقبل
5۔ انقلاب کے اہداف وشعار
6۔ انقلاب کی کامیابی کے عوامل واسباب
7۔ انقلاب کی راہ میں رکاوٹوں اور آسیب شناسی
8۔ انقلاب کا نقشۂ راہ اور مستقبل کے منصوبے
آپ نے اسلامی انقلاب کے مستقبل اور جدید اسلامی تمدن کی تاسیس کے لیے مندرجہ ذیل سات امور کی جانب خصوصی توجہ کی نصیحت کی ہے۔
1۔علم وتحقیق
2۔اخلاق ومعنویت
3۔اقتصاد اسلامی
4عدالت و کرپشن سے مقابلہ
5۔خودمختاری و آزادی
6️۔عزت ملی،خارجی روابط ،دشمن کے ساتھ حدبندی کی رعایت
7️۔طرز زندگی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔