۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا فیروز علی بنارسی

حوزہ/ اسلامی انقلاب نے بندگی خدا، انسانی ارتقاء اور معنویت و دین کو محور قرار دے کر عالم وجود میں قدم رکھا اور دنیا کے ایک گوشے میں اسی بنیاد پر قائم ایک حکومت کی داغ بیل ڈال دی۔ اس نے احکام اسلامی کے نفاذ، شریعت کی پاسبانی اور انسانی ساز مکتب کو اپنا واقعی نصب العین قرار دیا ۔

تحریر: مولانافیروز علی بنارسی

حوزہ نیوز ایجنسی।ایران کا اسلامی انقلاب اپنے ظہور ، مجاہدت و قیام کے محرک کے اعتبار سے دوسرے انقلابات سے الگ نوعیت کا حامل ہے ۔یہ انقلاب خداوند عالم کی جانب سے اس مظلوم اور غارت زدہ عوام کے لئے ایک الٰہی ہدیہ اور غیبی تحفہ ہے ۔(امام خمینیؒ)

’’انقلاب اسلامی ‘‘ایک بدیع اور جدید کلمہ ہے جو ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سیاسی و سماجی علوم کے انسائیکلو پیڈیا میں داخل ہوا ہے ۔یہ انقلاب ایک عالمی شہرت کا حامل ہے اور دشمنوں کے نزدیک بھی موثر اور توجہ طلب صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اسی لئے ایران کا اسلامی انقلاب موجودہ صدی کا عظیم سماجی اور سیاسی واقعہ تصور کیا جانے لگا ہے ۔

یہاں پر اس عظیم الشان اسلامی انقلاب کے اہداف،خصوصیات ، عوامل اور اثرات و نتائج پر مختصر طور سے روشنی ڈالی جا رہی ہے ۔

اغراض و مقاصد انقلاب:

ہر انقلاب کے کچھ اغراض و مقاصد ہوتے ہیں جو اس انقلاب کی امنگوں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور انقلاب کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے اغراض و مقاصد مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ دین اور معنویت کا احیاء

معنویت کے فقدان کے دور میںجب انسان مادہ اور مادیات کا اسیر تھا اور انسانی تشخص مسخ ہوتا جا رہا تھا ،دین اور معنویت کی گفتگو اور بازگشت ایک معجزہ الٰہی سے شباہت رکھتی تھی ۔ایسے مادی عصر میں جب عالمی رائے عامہ کی اکثریت سیاست سے دین کی جدائی کا عقیدہ رکھتی تھی اور مادی ترقی کو اپنی بہشت موعود تصور کر رہی تھی ایسے دور میں اسلامی انقلاب نے بندگی خدا، انسانی ارتقاء اور معنویت و دین کو محور قرار دے کر عالم وجود میں قدم رکھا اور دنیا کے ایک گوشے میں اسی بنیاد پر قائم ایک حکومت کی داغ بیل ڈال دی۔ اس نے احکام اسلامی کے نفاذ، شریعت کی پاسبانی اور انسانی ساز مکتب کو اپنا واقعی نصب العین قرار دیا ۔

۲۔ عدالت و حقانیت کا احیاء

دین اسلام میں ظلم سہنا،ظلم کرنے کی طرح ناپسندیدہ ہے۔ ظلم کا مقابلہ اور حقانیت کا دفاع حقیقی قائدین اسلام کی روش و سیرت رہی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ کا لازمہ قربت و خوشنودی الٰہی ،انسانوں کی اصلاح اور ہر قسم کی ناانصافی ،ظلم اور امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔ اس اسلامی انقلاب نے معاشرہ میں رائج طبقاتی فاصلہ ،انسانی حقوق کی پامالی ،حکمرانوں اور ظالموں کے امتیازی سلوک، مستضعفین پر ظلم و بربریت کے خاتمہ کے لئے عدالت پسندی کا نعرہ بلند کیا اور استبداد اور مظلوموں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف عملی قدم اٹھایا۔

۳۔استعماریت کی نفی اور حریت پسندی

انقلاب اسلامی نے وسیع پیمانہ پر چھائی ہوئی استعماریت اور سامراجیت کے خون آلود پنجوں سے ملک کے سماجی ،سیاسی، اقتصادی ،ثقافتی مفادات کو نجات دلانے کا اعلان کیا اور برسراہ اقتدار نوکرصفت پٹھو حاکموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور اپنی خود مختاری کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لئے سعی و کوشش کی ۔

۴۔ حریت پسندی اور استبداد کا انکار

ظالم حکمراں ڈکٹیٹر شپ کے ذریعہ ہمیشہ گھٹن کا بازار گرم کئے رہتے ہیں جس کی بنا پر ملک سامراجی طاقتوں کے تسلط کا محور بنتا چلا جاتا ہے جو معاشرہ اس نوعیت کی حالت کو جھیل رہا ہو اس میں انقلاب کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لئے کہ انسانی طبیعت کا لازمہ آزاد زندگی اور آزاد فکر کرنا ہے ۔ امام خمینی ؒ نے اسی حریت پسندی کو ظالم شاہ کی ظالم حکومت کے سامنے عوام کا ایک بنیادی مطالبہ بنا کر رکھ دیاجس کے سامنے شہنشاہیت نے گھٹنے ٹیک دیئے۔

اسلامی انقلاب کی خصوصیات:

۱۔ اسلام کا مرکزی کردار

ایران کے اسلامی انقلاب کی سب سے اہم اور بنیادی خصوصیت اسلام کو مکتب فکر قرار دینا ہے۔ اس انقلاب نے عصر حاضر کے انسانوں کے لئے اسلام کو ایک جامع ، ہمہ گیر اور سفینہ نجات کے طور پر پیش کیا اور اس نے تمام مکاتب فکر کو چیلنج کرتے ہوئے اسلامی مکتب فکر کے نظریات کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور پورے عالم بشریت کو بتا دیا کہ تمہاری لا علاج بیماری کا علاج صرف معنویت اور الوہیت کی طرف بازگشت ہے اور یہ صرف اسلام ہی میں مل سکتی ہے۔

۲۔ ہمہ گیر انقلاب

عام طور سے انقلاب سماجی ، سیاسی اور اقتصادی امور میں بعض بنیادی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے وجود میں آتے ہیں یا حکومتی ڈھانچے میں تبدیلیاں لا کر رک جاتے ہیں۔ لیکن ایران کے اسلامی انقلاب نے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں پیدا کیں اور معاشرہ وسیاست کے ہر شعبہ میں بنیادی تبدیلی کی۔ اقتصاد ،سیاست اور معاشرت کے وہ تمام امور جو انقلاب سے پہلے کی نوعیت سے میل نہیں کھاتے تھے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس انقلاب کا مخاطب صرف ایران ، دینی واسلامی سماج نہ تھا بلکہ پورا عالم بشریت تھا۔

۳۔ عوام پر بھروسہ

ہر انقلاب اور سماجی تحریک کی ایک خصوصیت اس کا عوام پر بھروسہ کرناہے ۔ جس قدر عوام کی شرکت وسیع ہوتی ہے اسی قدر انقلاب وتحریک کو قوی اور مستحکم تصور کیا جاتاہے ۔ ایران کا اسلامی انقلاب عوام کی ایک ایک فرد سے تعلق رکھاتھا۔ اس میں عوام کی وسیع شرکت بے نظیر تھی جس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے انقلاب میں نظر نہیں آتی ۔ اس میں سماج کے سارے افراد ہر قسم کے ذاتی مفاد اور ذاتی سلیقہ سے بالاتر ہو کر اسلام پسندی کے پرچم تلے شہنشاہی نظام کے خلاف با شکوہ وکم نظیر اجتماع کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔

۴۔ قیادت ومرجعیت

بے شک عوام کو منظم کرنے نیز ان کی ہدایت وقیادت اور مقررہ اغراض ومقاصد کے حصول صرف توانا اور آگاہ قائد کے نظریات اور اس کی قیادت کے ذریعہ ہی ممکن ہیں ۔ لہٰذا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینیؒ کی شخصیت انقلاب کے ظہور اور اس کی کامیابی میں انتہا ئی اہم کردار ادا کر رہی تھی ۔ ایسی جامع شخصیت کسی دوسرے انقلاب میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ امام خمینیؒ اپنے انفرادی و اجتماعی خصوصیات ، مختلف علوم و معارف میں مہارت، ایران وجہان کے تاریخی واقعات کی شناخت ، عصر جدید کے سیاسی مسائل سے آگاہی، دینی ومذہبی قیادت ومرجعیت جیسے امور کی بنا پر انقلاب اسلامی کے روح رواں اور قائد عظیم الشان تھے۔

انقلاب اسلامی کے ظہور کے اسباب:

۱۔ اسلام دشمنی اور عوام کے دینی و مذہبی عقیدہ کی مخالفت

استعمار کا اصل مقصد عوام کے مذہبی اور دینی عقیدے کی تصنیف وتخریب ہوتا ہے جو ضمیر فروش حاکموں کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ایران میں بھی پہلوی خاندان نے اس ذمہ داری کو سنبھال رکھا تھا اور اس مہم میںکامیابی کے لئے اس نے مندرجہ حربے اپنائے :

دین کو سیاست سے جدا رکھنا

الحاد و اباحی گری کو رائج کرنا جیسے گمراہ فرقہ بہائیت کی پشت پناہی اور ایسے قوانین کا اجرا جو بظاہر جدید اور ترقی یافتہ تھے لیکن باطن میں اسلام کے خلاف تھے۔

گمراہ کن لٹریچر ، مجلے ،فساد و فحشاء کے مراکز کی توسیع کے ذریعہ جوان نسل کی تباہی، انسانی قوت فکر کی تخریب ، پردے پر پابندی اور خواتین سے ناجائز فائدے اٹھانا جس کی بنا پر سماج تباہ کن حالات سے دچار تھا۔جوان طبقہ جس سے معاشرہ کو قوام ودوام ملتا ہے وہ اخلاقی بے راہ روی وغیر انسانی افعال میں سر گرم تھا اور معاشرہ میں فردی اور اجتماعی سلامتی وارتقاء کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔

اسلام کا عظیم و گراں بہا تمدن وثقافت اور تاریخ ایرانی شہنشاہیت میں تبدیل ہو رہا تھا۔

علمائے دین اور دانشوروں کی توہین کی جا رہی تھی جس کا ایک نمونہ قم میں مدرسہ فیضیہ پر حملہ اور علماء کا قتل عام ہے۔

حکومت کے اہم عہدوں کو غیر مسلم اور غیر شیعہ افراد کو دے کر انہیں مسلمانوں پر مسلط کیا جا رہا تھا۔

فارسی زبان کی حفاظت کے بہانے دینی و اسلامی کلمات کو حذف کیا جا رہا تھا۔

اہل بیت اطہار % کی مجالس عزا خصوصاً ماہ محرم پر پابندی عائد تھی۔

۲۔ اغیار سے وابستگی

ایرانی حکومت اور حکمرانوں کی اغیار سے وابستگی اور اغیار کا اثر و رسوخ قاچار حکومت کے دور سے شروع ہو کر پہلوی زمانے میں اپنے اوج کو پہنچ چکا تھا۔لیکن ایرانی عوام شروع ہی سے استماریت سے بر سر پیکار تھے اور اپنے ملکی ذخائر کی غارت گری سے ناراحت ورنجیدہ تھے اور اپنے اقتصادی مراکز و منابع کی تباہی وبربادی کا مشاہدہ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ شاہ اسرائیل کی بے چوں و چرا حمایت کئے جا رہا تھا

۳۔ گھٹن اور استبداد

ایران میں جو حکومت بھی بر سر اقتدار آتی تھی اسے عوامی مقبولیت حاصل نہ ہونے اور سابقہ عوامی قیام کی بنا پراسے ہمیشہ عوام سے خطرہ لاحق رہتا تھا اسی لئے شاہی نظام نے ایسے حالات سے مقابلہ کے لئے خوفناک ادارے بنا رکھے تھے ، جہاں مخالفین کو طرح طرح کے شکنجے دئیے جا تے، شاہی حکام اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرکے ان پر دباؤ ڈال کر اور ہر قسم کی سماجی تحریک کو کچل کر اپنے خیال خام میں حکومت کو مستحکم بنانا چاہتے تھے ۔

۴۔ فقر و غربت

پٹرول کی فروخت کے ذریعہ ملک کی آمدنی میں جس قدر اضافہ ہوتا وہ دربار اور شاہ کے قریبی افراد کی ناجائز ضروریات میں صرف کیا جاتا تھا اور ایرانی عوام اس ثروت سے محروم تھی۔ شاہ کا کام اسلحوں کی خریداری کے بہانے عوامی ثروت کو برباد کرنا، بڑے بڑے جشن برپا کرنا اور عیاشی، عیش و نوش اور فسق و فجور کی محفلیں سجا کر ان پر بے تحاشا خرچ کرنا تھا۔ امریکی مفاد ات کے لئے ’’انقلاب سفید‘‘ اور’’ اصلاحات ارضی‘‘ جیسے پروگراموں کے اجراء کے نتیجہ میں داخلی پیداوار اور زراعت تباہ ہو چکی تھی اور ملک مزید وابستگی کا شکار ہو گیا تھا۔ان جیسے دیگر اسباب کی بنا پر ایرانی معاشرہ میں فقر وغربت روزبروز برھتی جا رہی تھی اورطبقاتی فاصلے زیادہ ہو تے جارہے تھے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے اسباب:

ہر انقلاب کی کامیابی کے چند اسباب وعوامل ہوتے ہیں جیسے حکمراں جماعت کا بدکردار ہونا ، عوام کا متحد ہو کر صف آرائی کرنا اور منظم دستے تشکیل دینا ، ٹریننگ یافتہ افراد ، نیم فوجی دستوں کی تشکیل، رہبر وقائد کا شجاع ہونا اور انقلابی شخصیتوں میں وحدت فکر وعمل ہونا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چند بنیادی اسباب حسب ذیل ہیں:

۱۔ مشیت الٰہی اور خدا پر ایمان

خدا اور اس کی مشیت پر ایمان مومنین کے سر گرم عمل ہونے کا اصل سبب ہے وہ کامیابی کے وعدے کو دلوں میں زندہ رکھتے ہوئے پوری امید سے تمام مادی علل و اسباب کے مقابل کھڑے ہوجاتے ہیں اور خدا کا وعدہ ہے کہ جو لوگ ظالم اور بدعنوان حکومت کے خلاف قیام کرتے ہیں اور اپنے ایمان میں ثابت قدم ہوتے ہیں ، خدا ان کو اصلاح کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ امام خمینیؒ کی نظر میں مشیت پروردگار اور اس کی عنایت اس انقلاب کی کامیابی کا بنیادی سبب تھا۔

۲۔ اتحادو یکجہتی

کسی انقلاب کی ناکامی، یا کامیابی کے بعد شکست کی ایک علت عوامی مطالبات کی بنا پر انقلابی شخصیتوں کا چند الگ الگ دستوں میں تقسیم ہو جانا اور ہر دستے کا اپنے مطالبہ کو اہم تصور کرتے ہوئے اس کے لئے کام کرنے لگتا ہے، لیکن اسلامی انقلاب ایران میں اتحاد و یکجہتی موجزن تھی،فرعی مسائل بالائے طاق رکھ دیئے گئے تھے ،گذشتہ تحریکوں کا انجام ان کے پیش نظر تھا۔ لہٰذا سارے انقلابی عناصر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور معاشرہ کے تمام افراد نے مل جل کر اتھاد کے ساتھ اس انقلاب میں شرکت کی اور اسے ساحل کامیابی تک پہونچا یا۔

۳۔ امام خمینی ؒکی قیادت

انقلاب کے دوام رکن ایمان اور عوام کا یکجا ہونا یہ صرف امام خمینیؒ کی قیادت کا مرہون منت تھا ۔وہ قائد ورہبر جس نے تدبیر ودانش ، افعال واطوار کو الٰہی سیرت کی بدولت عوام کو ایمان و اتحاد اور الٰہی محرکات کا حامل ہونے کے راستہ پر گامزن کیا ۔ اس انقلاب کے ہر اہم موڑ پر امام خمینیؒ نے بنحو احسن اپنا کردار ادا کیا ورنہ انقلاب انحراف کا شکار ہو کر شکست سے دچار ہوجاتا۔

انقلاب اسلامی کے اثرات:

انقلاب اسلامی ایران ان عظیم تاریخی واقعات میں سے ایک ہے جس نے ایران اور پوری دنیا پر مختلف اثرات چھوڑے جس کے نتائج محققین کی عالمانہ تحقیق کے ذریعہ ہی قابل مشاہدہ ہیں ۔ امام خمینی ؒ ان نتائج کو ’’برکات انقلاب‘‘ کے عنوان سے یاد کرتے تھے ،وہ برکات جو خداوند عالم کے لطف وکرم سے ایرانی عوام کی تحریک کو عطا کی گئیں ۔اسلامی انقلاب کے بعض نتائج یا سیاسی و سماجی برکات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اقتصادی ،سیاسی اور ثقافتی خود مختاری

اس انقلاب کا ایک اہم ثمرہ جس کا دامن بہت وسیع ہے، مختلف شعبوں میں دوسروں پر انحصار نہ کرنا اور خودمختاری ہے ۔وہ ملک جس کا چپہ چپہ مشرق یا مغرب سے وابستہ تھا وہ کبھی بھی اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس نے ایسے انقلاب کی ہدایت و رہبری کی جو وابستگی کے مکمل خاتمہ کا سبب بنا اور یہ عدم وابستگی’’ نہ شرقی نہ غربی، جمہوری اسلامی‘‘ کے نعرہ میں جلوہ گر ہوئی ۔مذہبی اور قومی عناصر کے توسط جوانوں کو اپنا تشخص حاصل ہوا۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ملک کے عسکری ،اقتصادی و صنعتی و ثقافتی امور میںترقی ،جدید ٹیکنالوجی کا حصول ،اصیل اسلامی معیار ،دینی اصولوں پر قائم آئین کی تدوین،اسی خودمختاری کے تحفظ کے چند اہم نمونے ہیں۔

۲۔ آزادی

یہ آزادی، مغربی آزادی کے معنی میں نہیں ہے جہاں انسان اپنی انسانیت ہی سے آزاد ہو جاتا ہے بلکہ یہ وہ آزادی ہے جب انسان اندرونی اور بیرونی اعتبار سے شیطانی جالوں سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس کے اندر پاک اور الٰہی گو ہر شکوفہ ہوتے ہیں اور وہ کمال طلبی کے راستہ پر گامزن ہو جاتا ہے ۔لہٰذا یہ آزادی اخلاقی و جنسی بے راہ روی ،افکار، اذہان کی تحریک ،اخلاقی انحطاط کا شکار ،دینی و انسانی اصولوں سے بے اعتنائی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ آزادی رشد و اصلاح کے معنی میں ہے اور ایرانی عوام نے اس آزادی کے حصول کے لئے بہت مہنگی قیمت چکائی ہے ۔

۳۔ سماجی اور سیاسی میدانوں میں خواتین کی شرکت

ایرانی میں خواتین کی سماجی شرکت دنیا کی عمومی نگاہ سے فرق رکھتی ہے ،عورت ان کی نگاہ میں ایک نفع بخش وسیلہ ہے ۔خواتین کا اہم اور مرکزی کردار تاریخ میں مسلوب نظر آتا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران میں جنسیت کے بجائے انسانیت کے معیار پر ان کے حقوق کا احیاء ہوا ۔ وہ خواتین جنہوں نے امام خمینی ؒ کے اسلامی انسانی اصولوں کی بنا پر اپنے اصلی مقام کو حاصل کیا تھا وہ انقلاب اسلامی کی کامیابی میں پیش پیش رہیں ۔امام خمینی ؒ کی نظر میں عورت کی سماج میں شرکت کرنااور ثقافتی، سماجی اور مذہبی میدان میں کردار ادا کرنا، دینی تعلیم کے منافی نہیں ہے۔ عورت اپنی انسانی شان ومنزلت اور وجاہت کو حفظ کرتے ہوئے تمام میدانوں میں موثراور فعال رول ادا کر سکتی ہے

۴۔ استکبارستیزی

امام خمینی ؒ ثقافت ،سیاست اور معاشرہ میں ہر طرح کے غیر ملکی تسلط کے شدید مخالف تھے اور پوری دنیا سے استکبار اور سامراجیت کی سر پرستی کی نفی کرتے تھے اور پورے عالم بشریت کے لئے ایک پر امن اور پسندیدہ زندگی کے خواہاں تھے اور آپ کا یہ مقصد انقلاب اسلامی ایران کے بعد مختلف شکلوں میں پورا ہو ا اور ہورہا ہے کہ انقلاب اسلامی کا آغاز ،کامیابی اور اس کی بقا استکبار کے لئے ایک طرح کی تحقیر و تذلیل تھی اور ہے کیونکہ عالمی استکبارو تسلط پسند طاقتیںمدعی ہیں کہ پوری دنیا ان کے اختیار میں ہے ۔

۵۔ محرومین اور مستضعفین کی حمایت

انقلاب اسلامی کی ایک اہم برکت محرومین ،مستضعفین اور ظلم و ستم کی شکار اقوام کی حمایت ہے اوروہ اسے ایک شرعی فریضہ سمجھتا ہے ۔یہ انقلاب ہر قسم کے مذہبی و قومی و جغرافیائی تعصب سے بالاتر ہو کر تمام ستمدیدہ اقوام سے اظہار ہمدردی کرتا ہے اور عالمی پیمانہ پر اس امتیازی فعل کو ختم کرنے کے لئے اپنی تمام ترکوششوں کو اقوام کی ثقافتی ،سیاسی اور اقتصادی اصلاح پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ایرانی قوم جس نے محرومیت کا مزہ چکھا ہے اور ایک عرصہ تک اس کا شکار رہی ہے وہ محروم اور ستمدیدہ قوموں سے اظہار حمایت و ہمدردی کرتی ہے اور عالمی پیمانے پر سماجی و سیاسی صورت حال کی بہبودی کے لئے سعی وکوشش کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔

۶۔ امت مسلمہ کی بیداری

تمام تر اندرونی و بیرونی اسباب و عوامل جن کی بنا پر امت مسلمہ تمدن خیز بلندی اور علمی سرفرازی کے عہد زرین سے الگ تھلک ، وابستگی اور عقب ماندگی کاشکار ہوگئی تھی اس طرح کہ تمام مسلمان حکومتیں اور قومیں مغربی طاقتوں کے پروپگنڈوں سے مرعوب ہوکر رہ گئی تھیں اور ان میں مقابلہ کی طاقت ختم ہو چکی تھی ۔امام خمینی ؒ نے دین اسلام کے نظری اور عملی اصولوں کی کامل شناخت رکھتے ہوئے پورے عالم اسلام کو اسلام کے احیاء اور مسلمانوں کی ترقی کے دور کی جانب بازگشت کے لئے مجاہدانہ سعی و کوشش کی دعوت دی ۔آپ کی تحریک مندرجہ ذیل جہات کی حامل تھی :

مسلمانوں کے درمیان اسلامی فکر کا احیاء اور اس کی طرف بازگشت

مسلمانوں کی دلی آرزو کا ذکر یعنی صدر اسلام کی عدل نبوی کی حکومت کا قیام

اتحاد بین المسلمین

اسلامی تحریکوں خصوصاً فلسطین کی حمایت

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .