۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
عرفان حیدر بشوی

حوزہ/اسلام ایک جامع دین ہے، جس میں بشر کی مادی اور معنوی تمام ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ اور بات ہے کہ اسلامی تعلیمات کے اجتماعی پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج کرہ ارض کے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، البتہ اس اہم نکتے سے کم وبیش اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والے محققین اور دانشوران آگاہ تھے ،مگر ان میں اخلاقی جرأت کی کمی اور بصیرت کے فقدان کے باعث مسلم معاشرے، اسلامی تعلیمات پر مبنی نظام کے نفاذ سے قاصر رہے۔

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسیاسلام ایک جامع دین ہے، جس میں بشر کی مادی اور معنوی تمام ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ اور بات ہے کہ اسلامی تعلیمات کے اجتماعی پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج کرہ ارض کے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، البتہ اس اہم نکتے سے کم وبیش اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والے محققین اور دانشوران آگاہ تھے ،مگر ان میں اخلاقی جرأت کی کمی اور بصیرت کے فقدان کے باعث مسلم معاشرے، اسلامی تعلیمات پر مبنی نظام کے نفاذ سے قاصر رہے-چنانچہ آج سے 43 سال قبل ایران کی سرزمین پر مکتب آل محمد کے پروردہ، فقیۂ نامدار حضرت امام خمینی( رح) نے اپنے آباء واجداد طاہرین کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے ایرانی قوم کو بیدار کیا،ظلم کے خلاف قیام کرنے کا درس دیا اور انہیں اپنی بے پناہ جدوجہد کے نتیجے میں انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کا موقع ملا،جس کے زیر سایہ اسلامی نظام پر مبنی حکومت تشکیل پائی- اس مضمون میں ہم ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے عوامل کا جائزہ لیں گے تاکہ حال ہی میں آمریت کے خلاف بغاوتیں شروع کرنے والے دوسرے اسلامی ممالک کے مسلم عوام ان عوامل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تحریکوں کو جہت دے سکیں۔

نہایت اختصار کے ساتھ کچھ عوامل پیش خدمت ہیں:

1-ایمان اور ارادہ:

تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی کام میں کامیابی کے لیے مصمم ارادہ بنیادی شرط ہے-جو لوگ کام کرنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں یا اس کے نتیجے پر یقین نہ رکھتے ہوں انہیں عملی زندگی کی کامیابیاں خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام خاص طور پر آنحضرت (ص) کی سیرت کے مطالعے سے اس حقیقت کا علم ہوتا کہ کہ ان کی زندگی میں ارادے کو کلیدی حیثیت حاصل تھی- پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کا ایک سبب ایمان اور محکم ارادہ تھا، یہاں تک کہ جب مشرکین قریش نے حضرت ابو طالب (ع ) کے ذریعے آپ کو دھمکیاں اور لالچ دینے کے پیغامات بھیجے ہدف یہ تھا کہ آنحضرت کے ارادے کو متزلزل کریں- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا عَمِّ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِینِی وَ الْقَمَرَ فِی یَسَارِی
عَلَی أَنْ أَترُکَ هذَا الْأَمْرَ - حَتَّی یُظْهِرَهُ اللَّه اَوْ اُهْلِکَ فِیه - مَا اَتْرُکُهُ
(محمد بن اسحاق،سیرہ نبویہ:ج 1 ص 27)
"چچا جان خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے داہیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تو بھی میں اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا، یہاں تک کہ دین حق ظاہر ہو جائے، یا میں اس کے لیے اپنی جان قربان کر دوں۔""
اسلامی انقلاب کے تاریخی واقعے میں قانون کی حکمرانی اور الہی اقدار پر یقین کی بنیاد پر، ایرانی عوام نے ظالم حکمرانوں کی ظالمانہ نظام بادشاہت کو مسترد کر دیا، اپنی اجتماعی طاقت سے رضائے الٰہی کے حصول کے لئے اس کا قلع قمع کر دیا، اس سے منسلک تمام اداروں اور مراکز کے خاتمے کی حمایت کی اور اس راہ میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

2-اسلامی محاذ:

اسلام ایک ایسا مکتب ہے جو انسانوں کو اندر اور باہر سے بدل سکتا ہے اور تاریخی، سماجی اور ثقافتی گہری تبدیلیاں لا سکتا ہے، یہ الہی قانون ایمان اور مزاحمت کی قوتوں کو متوجہ کرنے اور متحرک کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ اسلام میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ:
1۔یہ قوانین قیامت تک انے والے انسانوں کو آخری منزل تک لے جائیں گے۔
2۔یہ قوانین دوسرے مکاتب سے انسان کو بے نیاز کریں گے۔
3۔ اس میں انسانوں کی تمام مادی اور روحانی ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
4۔اس کے منصوبے انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔
5۔وقت گزرنے سے اس کی اصلیت اور حقیقتیں کم نہیں ہوتیں۔
6۔یہ آفاقی اور ہمگانی ہے۔

چنانچہ ہر وہ انقلاب جس کا اسلامی محاذ ہو یقیناً وہ دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا، لوگوں میں اتحاد پیدا کرے گا اور ان کے ایمان و ارادے کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کرے گا۔ ایران کا اسلامی انقلاب اپنی تمام جہتوں میں خدائی رنگ اختیار کر چکا تھا اور خدائی رنگ بہترین رنگ ہے۔
صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صبْغَةً
(بقره/138)
'یہ الہی رنگ ہے؛ اور الہی رنگ سے زیادہ خوبصورت کون سا رنگ ہوسکتا ہے؟
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک کامل دین کے طور پر متعارف کرایا ہے جو اس کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہے اور فرماتا ہے:
الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ دینِکُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً
(مائده /3.)
آج کافر آپ کے دین سے مایوس ہوچکے ہیں اس لیے ان سے مت ڈرنا، اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دیں اور میں نے اسلام کو تمھارا (ابدی) دین تسلیم کر لیا۔
اور سورہ آل عمران میں فرمایا:
وَ مَنْ یبْتَغِ غیْرَ الْإِسْلامِ دیناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَ هُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینَ
(آل عمران/ 85.)
اور جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کیا اس سے وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔اسی وجہ سے ایرانی عوام کے تمام نعروں اور تحریکوں نے توحیدی، اسلامی اور الہی رنگ اختیار کیا اور یہ تمام طبقوں کے لئے آئڈیل قرار پایا -
ان کے نعرے، ترانے اور دیگر پروگرامز قرآنی اور اسلامی اصطلاحات کے ساتھ تھے اور اسلامی انقلاب کی فتح ایک الہی وعدے کی تکمیل تھی:إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ أَقدامَکُمْ
(آل عمران ۸۵)
اگر تم خدا کے دین کی مدد کرو گے تو خدا ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کرے گا۔

3- رہنما کا روحانی اثر:

امامت کا فلسفہ اور ولایت فقیہ کے نظام کی صورت میں اس کا تسلسل ایک خاص طاقت اور اثر ہے جو دین اسلام ایک حاکم فقیہ کو دیتا ہے اور اسے دلوں پر غلبہ حاصل کرنے کی حد تک طاقتور بنا دیتا ہے۔ اس کی اطاعت، جو کہ خدا کی اطاعت کے مترادف ہے، مسلمانوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔
اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے مترادف ہے:
مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ
(نساء ۸۰)
جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
دیانت، لگن، عزم، اسلام سے محبت، تقویٰ، علمی اور فقہی شخصیت، سادگی، آزاد سوچ، محروموں کے لیے ہمدردی، پختہ یقین، غیر متزلزل یقین، عظمت روح، روشن خیالی اور رہبر انقلاب اسلامی ایران کی دیگر خصوصیات نے انہیں کروڑوں عاشقان رسول کے دلوں کا محبوب بنا دیا۔
جیسا کہ اس تاریخی شخصیت کے پیغامات، الفاظ اور طرز عمل اس کے پیروکاروں کے لیے متاثر کن اور سبق آموز تھے۔
( عباس علی امید زنجانی، اسلامی انقلاب سے اقتباسات)
شہید مطہری (رح) کا عقیدہ تھا کہ امام خمینی (رح) کی آواز ثقافت کے قلب اور تاریخ کی گہرائیوں اور اس قوم کی روح کی گہرائیوں سے اٹھی تھی، وہ لوگ جنہوں نے چودہ صدیوں کے دوران حضرت محمد ص، امام علی (ع) کی عظیم الشان تاریخ کے دوران حضرت زہرا س ، امام حسین ع، حضرت زینب (ع) سلمان، ابوذر اور لاکھوں دوسرے مردوں اور عورتوں نے سنا تھا اور یہ افسانے ان کی روح میں پیوست ہو گئے تھے، ایک بار پھر انہوں نے اس شخص کی وہی مانوس آواز سنی۔ انہوں نے امام علی اور امام حسین (ع) کو اپنے چہرے میں دیکھا، انہوں نے انہیں اپنی ذلت آمیز ثقافت کا مکمل آئینہ تسلیم کیا۔ امام خمینی نے کیا کیا؟ اس نے ایرانی لوگوں کو کردار دیا۔ اور اس نے ان کی حقیقی خودی اور اسلامی تشخص کو بحال کیا، انہیں خود ساختہ تباہی سے نکالا، یہ اس کا قوم کو دیا گیا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ وہ لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد اور شناخت کو بحال کرنے اور انہیں خود پر یقین دلانے کے قابل بنایا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اسلام ہی واحد نجات دہندہ ہے۔
(مرتضی مطہری،اسلامی انقلاب ص 78)

4- لوگوں کا اتحاد:

انقلاب اسلامی کو کامیاب بنانے میں ایرانی عوام اس قدر متحد ہو گئے کہ ہر گروہ، ہر طبقہ، ہر تنظیم اور ہر پارٹی نے آمرانہ حکومت کے خلاف ایک ہی صف قائم کر دی اور کرپٹ حکمرانوں اور ظالموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا۔ اسلام ہی وہ واحد عنصر تھا جس نے یہ اتحاد پیدا کیا ایران کے مسلمان عوام نے بلند آواز سے تکبیر کا نعرہ لگایا جو ان میں خدائی طاقت کا کرشمہ تھا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:یَدُ اللُّهِ مَعَ الجَمَاعَة
اللہ کی طاقت عوام کے ساتھ ہے۔
(محمد غزالی، المصطفی :ص103)

5- کردار ادا کرنے والے مراکز:

ذیلی چار بڑے ثقافتی اور اقتصادی مراکز کو انقلاب اسلامی ایران کی فتح کے عوامل میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔
(الف)۔ مساجد: مساجد کے بارے میں قرآن کہتا ہے:فی بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فیهَا اسْمُهُ یُسَبِّحُ لَهُ فیها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ
(نور ۳۴)
یہ روشن چراغ ان گھروں میں موجود ہے جن کی دیواروں کو اللہ نے بلند کرنے کا اختیار دیا ہے (شیطانوں سے محفوظ رہنے کے لیے) وہ گھر جن میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور جن میں صبح و شام اس کی تسبیح ہوتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر میں، مساجد زمین پر خدا کا گھر ہے۔ اور کسی بھی شہر کا بہترین جگہ مسجد ہے اسلام کے آغاز میں مسجد مسلمانوں کی پایگاہ تھی اور ہر اقدام اور فیصلہ مسجد میں ہوتا تھا۔ایران کے اسلامی انقلاب کا مرکز بھی مساجد ہی تھے جو ایرانی مسلمان انقلابیوں کا پرجوش اور متاثر کن مرکز ہوتی تھیں۔ ایرانی آذاد مسلمان "اللہ اکبر" کی صدا کے ساتھ مساجد سے باہر نکلے انہوں نے طاغوت کی مشین گن کی گولیوں کے سامنے "آزادی"، "انصاف" اور "اسلام" کا نعرہ لگایا جو بڑی اہمیت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے فرمایا: لوگوں کو مسجد سے الگ نہ کیا جایے، لوگوں کا مسجد سے کٹ جانے کو آپ نے تمام خطرات سے زیادہ خطرناک قرار دیا اور فرمایا: دشمن کے ہوائی جہاز سے مت ڈرو، ڈرو کہ مسجدیں خالی نہ ہو جائیں۔

(ب)۔مدرسہ اور دینی ادارہ :

علمائے کرام کا ادارہ پوری تاریخ میں انبیاء و اولیاء کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے اسلام کی پیشانی پر ستارے کی طرح چمکتا رہا ہے اور مسلمانوں کی راہیں روشن کرتا رہا ہے۔ علماء، اساتذہ، سب قرآن کی اس دعوت پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ:فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِیَتَفَقَّهُوا فی الدِّینِ وَ لِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ
(توبه ۱۲۲)
ان میں سے ہر ایک قبیلہ کیوں ہجرت نہیں کرتا، تاکہ وہ دین سے آگاہ ہو جائیں اور جب وہ اپنی قوم کی طرف لوٹیں تو انہیں تنبیہ کریں وہ خوفزدہ ہو سکتے ہیں اور انکار کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں سے ہجرت کر کے تعلیمی مراکز کی طرف آئے ہیں، اور خلوص کے ساتھ عظیم روحانی اثاثے اور اعلیٰ انسانی صفات حاصل کر چکے ہیں، اور تعلیم کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں، جو انبیاء کا کام ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اس ادارے کے ساتھ اس قدر جڑا ہوا تھا کہ انقلاب اسلامی ایران کی چنگاری اسی مرکز سے شروع ہوئی اور اسی درس گاہ کے فارغ التحصیل افراد نے اس کی قیادت کی- سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔ انقلاب ایران کا مطالعہ کیے بغیر اس عظیم علمی اور روحانی ادارے کا کردار کسی مورخ یا محقق کے لیے سمجھنا ممکن نہیں ۔ یاد رہے کہ پوری تاریخ میں باشعور اور بیدار علماء کی قیادت میں آزادی اور جان بخشی کی تحریکیں اور بغاوتیں چلتی رہی ہیں۔اس حوالے سے بات کرنے کے لیے مزید تفصیلی وقت درکار ہے۔
امام خمینی (رہ) انقلاب اسلامی میں علماء کے کردار کے بارے میں فرماتے ہیں: " بنیادی طور پر علماء ہی تھے جنہوں نے اسلامی انقلاب کا آغاز کیا، ہر چیز کے لیے ماہر کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلام کا ماہر علماء ہیں۔
( عباس علی امید زنجانی، اسلامی انقلاب سے اقتباسات ص32)

(ج)۔کالج اور یونیورسٹیز:

ملک کے اندر اور باہر طلباء کی ایک بڑی تعداد نے اپنی چوبیس گھنٹے کی کوششوں سے انقلاب اسلامی کو یونیورسٹی سے جوڑ دیا تھا۔ دینی اور پرعزم پروفیسرز اور طلباء، قوم کے دیگر طبقات کے ساتھ خاص طور پر مدارس، علماء اور انقلاب کی قیادت کے ساتھ مل کر اس انقلاب کو کامیاب بنانا بھی ایک اہم عامل شمار کیاجاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے، یونیورسٹیاں مغربی ثقافت اور اقدار پر منحصر تھیں۔
(د)۔بازار: روایتی بازار مختلف ادوار میں ایران کے قدیم ترین سماجی طبقوں میں سے ایک تھا اور اس نے ملک کے سیاسی معاملات میں اہم کردار ادا کیا۔ مختلف ادوار میں اس وقت کی حکومتوں کی جانب سے مارکیٹ پر دباؤ کے باوجود تاجروں نے اپنی صلاحیت اور آزادی کو برقرار رکھا۔ بازار کی اس قابلیت نے انقلاب اسلامی کی فتح میں اس کے کردار کی اہمیت کو بڑھا دیا اور انہوں نے دوسرے طبقوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے اپنی دکانیں بند کر دیں۔

6۔اسلامی انقلاب کی کامیابی میں شہادت کا کردار:
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا ایک اہم ترین عامل ایثار و شہادت کا جذبہ ہے۔ یہ اعلیٰ خصوصیت جس کی جڑیں اسلام کی آزادی کے مکتب میں پیوست ہیں، ہمیشہ جہاد کا ایک مقدس محرک رہا ہے اور شہداء نے اپنے اسلامی نظریات کے ساتھ انقلاب کے راستے اور کردار اور فتح کے اہم عنصر کا تعین کیا ہے۔ اسلام کے اقداری نظام میں شہادت ایک ایسا معیار ہے جس سے دیگر اقدار اور اعمال صالحہ کی پیمائش کی جاتی ہے اور اقدار کی درجہ بندی میں اسے بہت اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
فَوْقَ کُلِّ ذِی بِرٍّ، بِرٌّ حَتَّی یُقْتَلَ الرَّجُلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَإِذَا قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللَّه فلَیْسَ فَوْقَهُ بِرٌّ؛
( محمد باقر مجلسی،بحارالانوار ج74، ص61؛ الکافی، محمد ابن یعقوب کلینی، جلد 2، ص.99)

شہادت ان پرہیزگاروں کے لیے مختصر ترین راستہ ہے جو دنیا سے رخصت ہو کر خدا سے جا ملے اور حق کی راہ تلاش کر رہے ہوں، اپنی آخری منزل اور اعلیٰ اہداف کو قرب الٰہی کے راستے پر تیزی سے پہنچ سکیں۔ قرآنی آیات کے نقطہ نظر سے شہادت نقصان اور فنا نہیں ہے۔ یہ ایک نئی ابدی زندگی ہے۔
وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ
(آل عمران 169)
خدا کی راہ میں مارے جانے والوں کو کبھی مردہ نہ سمجھو۔ بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے۔
استاد شہید مطھری شھید کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’شہید کی مثال ایک شمع کی سی ہے جس کی خدمت جلنا، فنا ہونا اور پھوٹنا ہے، تاکہ دوسرے بیٹھ کر اس کرن میں سکون حاصل کریں، جو اس کی غیرت کی قیمت پر ختم ہوئی ہے۔ جی ہاں. شہداء دائرہ انسانیت کی شمع ہے، انہوں نے دائرہ انسانیت کو جلایا اور روشن کیا۔ انسان جو دن کے وقت دھوپ میں کوشش کرتا ہے یا رات کو چراغ یا موم بتی کی روشنی میں کچھ کرتا ہے وہ ہر چیز پر توجہ دیتا ہے سوائے اس کے جو وہ نکلتا ہے کہ اگر اس کی روشنی نہ ہوتی تو تمام حرکتیں رک جاتیں . شہداء معاشرے کی وہ جلتی ہوئی شمعیں ہیں کہ اگر ان کی شمعیں ظلم اور غلامی کے اندھیروں میں نہ ہوتیں تو انسان کہیں نہ جاسکتا تھا۔
(مرتضی مطھری، مہدی قيام اور انقلاب:ص۷۶)

کامیابی کی کنجی:

بین علاقائی اخبار الشرق الاوسط ایران کے اسلامی انقلاب کو الجزائر کے انقلاب سے تشبیہ دیتا ہے اور ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی کنجی ایثار و قربانی اور جذبۂ شہادت کو قرار دیتا ہے اور لکھتا ہے: وہ ایمان اور جذبۂ شہادت رکھتے تھے۔ تاہم، الجزائر کے انقلاب نے دس لاکھ شہداء کو وقف کر کے نہ صرف ان شہداء کو اپنی جدوجہد کے نمونے کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ درحقیقت اسلامک سالویشن فرنٹ کے بعض ارکان نے ان کی شہادت کے اصول پر بھی سوال اٹھایا۔
(جرنل آف دی پریچرز، جلد 20، صفحہ 112۔)

نتیجہ:

دین اسلام واحد دین ہے جو انسانوں کو کمال تک لے جاسکتا ہے اور انسان کی مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ایرانی عوام نے امام خمینی رح کی قیادت میں وقت کے سفاک ظالم و جابر طاغوت کا تخت و تاج خاک میں ملاکرپوری دنیا کو یہ بتلادیا کہ اگر انسان مخلص ہو اور خدا کے لیے کوئی کام کرے تو خدا خود اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دنیا اور آخرت دنوں میں سرخرو کرواتا ہے انسان کا ایمان اور ارادہ محکم ہو ہمت بلند ہو تو انسان کمال کی اعلی منزلوں کو آسانی سے طے کرسکتا ہے اور انسان اگر آپس کے جزئی اختلافات کو نظرانداز کرکے ہرقسم کے تعصبات سے ہٹ کر ایک صف میں کھڑے ہوجائے تو زمانے کے فرعون کو نابود کرسکتا ہےجیسا کہ ایرانی عوام نے یہ کرکے دیکھایا اسلامی انقلاب کو پھیلانے کے لیے مساجد کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور رہے گا مساجد اسلام کا مورچہ ہے جس مکتب میں شہادت اور امید ہو وہ مکتب ہمیشہ زندہ رہے گا اس کو زوال نہیں آئے گا۔

حوالہ جات:

1۔قرآن مجید
2۔سیرہ نبویہ ج 1 ص 89 ،ابن
ھشام، محمد بن اسحاق یسار:ناشر:صبیح مصر،1383
3۔اسلامی انقلاب سے اقتباسات، ص 67 عباس علی امید زنجانی،ناشر طوبی تھران 1998
4۔المستصفی، محمد غزالی، دارالکتب العلمیه، بیروت، 1417 ق، ص 139.
5۔گزیدۀ انقلاب اسلامی و ریشه های آن، عباسعلی عمید زنجانی، ص 32
6۔صحیفه امام، ج19، ص318.
7۔قیام و انقلاب مهدی، مرتضی مطهری، نشر صدرا، قم، رجب 1398، ص 76
8۔شجرۀ طوبی، محمدمهدی حائری، مطبعه حیدری، چاپ پنجم، 1385 ق، ص 419؛
9۔نشریۀ مبلّغان، ش 20، ص 112.
10۔ره توشه انقلاب، تدوین از شورای هماهنگی تبلیغات اسلامی، ص487.

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .