۱۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۷ شوال ۱۴۴۵ | May 6, 2024
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی

حوزہ/صدقہ،انسان کے مال میں سے اللہ تعالٰی کے نام پر کچھ دینے کو کہتے ہیں اور اس کا تعلق مال سے ہوتا ہے۔

تحریر: مولانا محمد یعقوب بشوی

حوزہ نیوز ایجنسیصدقہ،انسان کے مال میں سے اللہ تعالٰی کے نام پر کچھ دینے کو کہتے ہیں اور اس کا تعلق مال سے ہوتا ہے۔صدقہ کتنا پاکیزہ اور مقدس عمل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالٰی خود اپنے بندے سے صدقہ وصول کرتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:"أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ‌ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِهِ وَ يَأْخُذُ الصَّدَقاتِ وَ أَنَّ اللهَ‌ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحيمُ"؛کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ ہی وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان سے صدقہ لےلیتا ہے اور بےشک اللہ ہی بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے(القرآن:104/9)۔
توبہ کی نسبت بندے سے ہو تو اس کا معنی خدا کی طرف لوٹنا اور پلٹنا ہے اور اگر اس کی نسبت خدا کی طرف ہو تو بندے کی طرف خدا کا پلٹنا ہے اور قرآن مجید میں دونوں معانی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔توبہ ایک اندرونی انقلاب اور تبدیلی ہے اس لئے مال پر مقدم ہوا ہے اور یہ ایک مقدس عمل اور عبادت ہے۔
در حقیقت توبہ بھی صرف اللہ ہی قبول کرتا ہے یہ ایک خالص عمل ہے جو صرف عبد اور معبود کے درمیان ہے اسی طرح صدقہ در اصل خدا قبول کرتا ہے پیغمبر، امام وغیرہ وسیلہ ہے یہی وجہ ہے تفسیر برہان میں اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:"صدقہ فقیر کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے"۔
صدقہ دیتے وقت احترام اور سائل کی حرمت کا خیال رکھا جائے کیونکہ صدقہ خدا وصول کرتا ہے اور سائل کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے۔
اسی وجہ سے آیت میں" الم یعلموا" ،آیا ہے تاکہ اس مقدس عمل کی طرف انسان کی مکمل توجہ ہو کہ اس کا معاملہ ظاہری طور پر فقیر کے ساتھ ہے اما حقیقت میں اس کا معاملہ خود اللہ تعالٰی کے ساتھ ہے۔
جس طرح انسان کی طہارت نفس کے لئے توبہ ضروری ہے اسی طرح صدقہ بھی لازم ہے، جس طرح توبہ انسان کو گناہوں اور آلودگیوں سے پاک کرتی ہے اسی طرح صدقہ بھی انسان کو گناہوں سے پاک کرنے میں انتہائی اہم عامل ہے یہی وجہ ہے کہ صدقہ کو لینے کے لئے اللہ تعالٰی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مامور بناتا ہے:"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"؛
ان کے مال سے صدقہ وصول کرو اس کے ذریعے ان کو پاک کرو اور اس صدقہ کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ کرو اور ان کے لئے دعا کرو بےشک تمہاری دعا میں ان کے لئے سکون ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے(توبہ/103)۔
اس آیت میں طہارت کا لفظ، تزکیہ پر مقدم ہوا ہے اور یہ اس لئے ہوا ہے کہ پہلے انسان کو گناہوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے جب وہ گناہوں سے پاک ہوگا تب تزکیہ شروع ہوگا اور تزکیہ حصول طہارت کے بعد اس کے نفس کی تربیت اور نشو و نما ہے اور خود مال سے صدقہ دینا اتنا معتبر عمل ہے کہ اس عمل کے ذریعے انسان کو نہ صرف باطنی طہارت ملتی ہے بلکہ باطنی تعمیر بھی شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ملکی اور خاکی انسان، ملکوتی اور آسمانی بن جاتا ہے۔
صدقہ کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے مقدار مہم نہیں ہے کہ انسان بہت زیادہ مال دے،بلکہ جتنا وہ دے وہی کافی ہے بلکہ بعض روایات میں آیا ہے:"اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ شِقُّ تَمْرَةٍ فَكَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ"؛ بچو تم دوزخ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر ہو اور یہ بھی نہ پائے تو اچھی سی کوئی بات کہہ کر سہی۔
انسان کی نجات میں صدقہ کتنی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ روایت بیان کر رہی ہے اسی طرح دوسری روایت میں آیا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص اپنی پاکیزہ (حلال) کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اس کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا جوان اونٹنی کو پالتا ہے۔ حتی کہ وہ (ایک کھجور کا صدقہ) پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ جاتا ہے"(صحیح مسلم ،كتاب الزكاة : 1014، 2212)۔اسی بات کی تائید قرآن مجید بھی کرتا ہے:"يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ"(بقرہ:276)؛اللہ تعالٰی سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقہ کی پرورش کرتا ہے۔
صدقہ ایک ایسانفع بخش عمل ہےکہ مرنےوالےکو سب سے پہلے اس کا ثواب نظر آتاہے :"وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ"(منافقوں:10)۔
اس آیت میں صدقہ کے فوائد اور اثرات کی طرف اشاره کیا ہے صدقہ دینے والا صالحین میں شامل ہوگا اور اس کا انجام بخیر ہوگا۔ تمام انسانوں کو جو غم کھاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا انجام کیسا ہوگا؟
صدقہ ایک ایسا بےنظیر عمل ہے جو انسان کو اس غم اور پریشانی سے نجات دلاتا ہے اور وہ صالحین میں شامل ہوکر مرتا ہے اور دوسری بڑی بات صدقہ سے متعلق قرآن کریم میں یہ ہے کہ یہ وہ انتہائی مقدر ساز عمل ہے کہ مرنے والا دنیا میں پلٹ کر فقط یہی عمل انجام دینے کی تمنا اپنے رب سے کرتا ہے کیونکہ یہی عمل اس کی نجات کا ضامن ہوگا۔
اخر میں صدقہ سے متعلق اس اہم نکتے کی طرف بھی قارئین گرامی توجہ کریں کہ صدقہ محتاج رشتے داروں کو دینے کی زیادہ سفارش ہوئی ہے اور یہ آپس کی دشمنی ختم کرنے میں انتہائی موثر ہے۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو بغض و عداوت رکھنے والے (مستحق) رشتہ دار کو دیا جائے( صحيح الجامع : 1110 )۔اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس نیک عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .