حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں "کم عطا کرنے کو خالی پلٹانے سے بہتر" ہونے کے بارے میں نکات بیان فرمائے ہیں:
حکمت ۶۷:
«لَا تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِیلِ، فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْهُ.»
" تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے۔"
تشریح:
امام علیہ السلام اپنے اس حکیمانہ فرمان میں ہر ممکن حد تک ضرورت مندوں کو محروم رکھنے سے منع فرما رہے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ کم مقدار میں دینے سے شرم نہ کرو کیونکہ محروم رکھنا اس سے بھی کمتر ہے۔
ایسے بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عطیہ اس وقت دیا جائے جب وہ قابلِ ملاحظہ مقدار میں ہو ورنہ ترک کر دیا جائے، جبکہ کم عطیہ (اگر معذرت و ادب کے ساتھ دیا جائے) تو کم از کم دو فائدے رکھتا ہے:
اولاً، بعض مواقع پر یہی کم مقدار کسی کا مسئلہ حل کر دیتی ہے۔
ثانیاً، درخواست کرنے والے کو انکار کرنا اس کی توہین ہے اور یہ عمل توہین سے بچا لیتا ہے۔
اس کے علاوہ، ہر حال میں انسان کے اندر سخاوت کا جذبہ پروان چڑھاتا ہے۔
"محروم رکھنا اس سے بھی کم تر ہے" ایک قسم کی کنایہ اور تشبیہ ہے کیونکہ محروم رکھنا کسی مالی مقدار سے قابلِ قیاس نہیں کہ کہا جائے یہ اس سے کم ہے۔ امام علیہ السلام درحقیقت محروم رکھنے کو بھی ایک بہت چھوٹے عطیہ کے برابر شمار کرتے ہیں کہ کوئی بھی عطیہ اس سے زیادہ ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ: «کُلُّ مَعْرُوف صَدَقَةٌ إِلَی غَنِیّ أَوْ فَقِیر فَتَصَدَّقُوا وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَة وَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ التَّمْرَةِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یُرَبِّیهَا لِصَاحِبِهَا کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِیلَهُ حَتَّی یُوَفِّیَهُ إِیَّاهَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَتَّی یَکُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ الْعَظِیمِ». "ہر نیک عمل صدقہ شمار ہوتا ہے، خواہ امیر کے ساتھ ہو یا فقیر کے ساتھ۔ لہٰذا صدقہ دینا کبھی ترک نہ کرو اگرچہ آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو اور اس آدھی کھجور کے ذریعہ خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ کیونکہ خداوند متعال اس چھوٹے صدقہ کو اس کے مالک کے لیے پرورش دیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس کو بڑھا کر کے واپس دے گا یہاں تک کہ وہ کسی بڑے پہاڑ سے بھی عظیم ہو جائے گا۔" (بحارالانوار، ج ۷۱، ص ۴۱۰، ح ۱۶)
اسی مفہوم کو حکمت نمبر ۴۲۲ میں دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے:“اِفْعَلُوا الْخَیْرَ وَ لَا تَحْقِرُوْا مِنْهُ شَیْئًا” "نیکی کرو اور اسے کبھی حقیر یا معمولی نہ سمجھو۔"
اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے انفاق میں اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، خلوص نیت رکھے۔ یہی خلوص تھوڑے کو بہت اور چھوٹے کو بڑا بنا دیتا ہے۔
منبع: کتاب "پیام امام امیرالمؤمنین علیہ السلام"(آیت اللہ مکارم شیرازی)، نہج البلاغہ کی تازہ اور جامع شرح۔









آپ کا تبصرہ