۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
رمضان المبارک کےانیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں میرا نصیب اس کی برکتوں سے مکمل کرلے اور اس کی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف میرا راستہ ہموار اور آسان کر، اور اس کے حسنات کی قبولیت سے مجھے محروم نہ فرما، اے آشکار حقیقت کی طرف ہدایت دینے والے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے انیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’أللّهُمَّ وَفِّر فيہ حَظّي مِن بَرَكاتِہ وَسَہلْ سَبيلي إلى خيْراتِہ وَلا تَحْرِمْني قَبُولَ حَسَناتِہ يا هادِياً إلى الحَقِّ المُبينِ‘‘
خدایا! اس مہینے میں میرا نصیب اس کی برکتوں سے مکمل کرلے اور اس کی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف میرا راستہ ہموار اور آسان کر، اور اس کے حسنات کی قبولیت سے مجھے محروم نہ فرما، اے آشکار حقیقت کی طرف ہدایت دینے والے۔

’’أللّهُمَّ وَفِّر فيہ حَظّي مِن بَرَكاتِہ‘‘خدایا! اس مہینے میں میرا نصیب اس کی برکتوں سے مکمل کرلے۔
لغت میں برکت کے معنی کسی چیز کے ثابت و دائم ہونے یااس میں رشد و اضافہ ہونے کے ہیں۔ قرآن کریم میں لفظ برکت اپنے ہم معنی الفاظ جیسے مبارک و مبارکہ، تبارک، بارک وغیرہ کے ساتھ ۳۲ بار ذکر ہوا ہے۔ یعنی کسی چیز، شخص یا زمین میں قابل قدر اضافہ ہونا۔ مثلاً دو شخص جنکی آمدنی مساوی ہو۔ یا دونوں کے پاس مساوی ثروت یا زمین وغیرہ ہو لیکن ایک کے یہاں اس میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے۔ نتیجہ میں وہ خوشحال اور مطمئن زندگی بسر کرتا ہے اور دوسرے کے یہاں اس اضافہ اور زیادتی کا فقدان ہے جس کے سبب وہ پریشاں حال رہتا ہے۔
قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کی روایات میں برکت کے اسباب و عوامل بیان ہوئے ہیں جنمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
ایمان و تقویٰ، استغفار، شکر، اطاعت اور ذکر خدا، عدالت، سحر گاہی، نرمی و مروت، دوسروں کو سلام کرنا، صدقہ دینا، پاکیزگی، شادی میں کم خرچ، صلہ رحمی، عدالت، پڑوسیوں اور برادران ایمانی سے حسن سلوک، روزہ رکھنا اور سحری کھانا وغیرہ۔
اسی طرح برکت کے لئے جو باتیں آفت ہیں اور انسان کو برکت سے محروم کرتی ہیں وہ بھی اسلام میں بیان ہوئی ہیں۔ جنمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
گناہان کبیرہ کا انجام دینا، نماز نہ پڑھنا، زکات ادا نہ کرنا، بیچنے میں کم تولنا، اسراف، خیانت، چوری، شراب خوری، بے حیائی اور معاملات میں جھوٹی قسم کھانا وغیرہ
نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنے کو ترک کرنے سے انسان برکت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: برکت اسی وقت میسر ہو گی جب لوگ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیں اور انہیں برائیوں سے روکیں گے اور نیک کاموں کی ادائگی میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ لیکن جب اسے ترک کر دیں گے تو برکت سے محروم ہو جائیں گے۔ (المقنعہ، صفحہ ۸۰۸)
امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے بارہ درہم دئیے اور فرمایا کہ میرے لئے لباس خرید لاؤ۔ مولاؑ نے بازار سےحضورؐ کے لئے ۱۲ درہم کا لباس خریدا اور اسے لے کر خدمت میں حاضر ہو گئے جیسے ہی آپؐ کی نظر لباس پر پڑی فرمایا: اے علیؑ ! اس(مہنگے) لباس کے علاوہ کوئی دوسرا (سستا) لباس ہوتا تو میں اسے زیادہ پسند کرتا۔ اگر واپس ہو جائے تو واپس کر دو۔ مولا علیؑ نے لباس واپس کر کے پیسے حضور کی خدمت میں حاضر کر دئیے تو آپ ؐنے فرمایا میرے ساتھ بازار چلو اور دونوں بازار کی جانب چل دئیے۔ راستہ میں ایک کنیز ملی جو رو رہی تھی حضورؐ نے پوچھا تم کیوں گریہ کر رہی ہو تو اس نے کہا کہ میرے مالک نے مجھے بازار سے سامان خرید کر لانے کے لئے چار درہم دئیے تھے جو مجھ سے کھو ہو گیا ہے۔ آپؐ نے فورا ًچار درہم اسے دئیے اور بازار تشریف لے گئے۔ بازار سے چار درہم کا لباس لیا اور بیت الشرف کی جانب روانہ ہوئے۔ چند ہی قدم چلے تھے کہ ایک فقیر ملا کہ جو کہہ رہا تھا کہ کون ہے جو مجھے لباس عطا کرے تا کہ اللہ اسے جنت میں لباس عطا کرے۔ آپ نے وہ نیا لباس اسے دے دیا اور دوبارہ دکان پر جا کر دوسرا چار درہم کا لباس خریدا اور دوبارہ بیت الشرف کی جانب چل دئیے تو راستہ میں پھر وہ کنیز اسی جگہ ملی جو اب بھی رو رہی تھی۔ آپؐ نے پوچھا کہ اب کیوں رو رہی ہو تو اس نے عرض کیا کہ مجھے تاخیر ہو گئی ہے اگر گھر جاوں گی تو مالک سزا دے گا۔ تو آپ ؐنے فرمایا تم میرے ساتھ چلو۔ آپؐ اس کے مالک کے گھر گئے اور اسے سلام کیا۔ بعد سلام فرمایا: اپنی کنیز کو تاخیر سے گھر واپسی پر کچھ نہ کہنا۔ کنیز کے مالک نے کہا یا رسول اللہ آپ کی تشریف آوری کے سبب میں اسے راہ خدا میں آزاد کرتا ہوں۔ حضور ؐنے فرمایا : خدا کی حمد ہے کہ میں نے ان بارہ درہم سے زیادہ با برکت درہم نہیں دیکھے کہ جو دو عریاں کو لباس اور ایک کنیر کی آزادی کا سبب بنا۔ (بحارالانوار، جلد ۱۶، صفحہ ۲۱۵)
اس دعا میں خاص طور سے ماہ رمضان کی برکتوں کے حصول کی دعا ہے۔ جہاں تک ماہ رمضان کی عظمت و برکت کا تعلق ہے تو پورے دین کو لانے والے نبیؐ ہی نے اس ماہ کی عظمت و برکت کا اعلان کیا۔ خطبہ شعبانیہ میں ماہ رمضان کی آمد کو رحمت، برکت اور مغفرت کے ہمراہ بتایا۔ نیز آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر لوگ ماہ رمضان کی قدر و منزلت جانتے تو یہی کہتے کہ ائے کاش! پورے سال ماہ رمضان ہوتا۔ اس میں سونا اور سانس لینا عبادت ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ماہ رمضان کو دوسرے مہینوں پر ویسے ہی برتری حاصل ہے جیسے ہم اماموں کو عام لوگوں پربرتری حاصل ہے ۔ کسی کا اہلبیت علیہ السلام سے قیاس ممکن نہیں ۔ جیسا کہ خود فرمایا کہ ہم پر کسی کو قیاس نہ کرو۔ اسی طرح کسی بھی مہینے کا ماہ رمضان سے قیاس ممکن نہیں ہے۔
مذکورہ دو روایتوں سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ یہ مہینہ برکتوں والا مہینہ ہے۔ لیکن اب ہر انسان جاننا چاہے گا کہ آخر اسکی برکتیں کیا ہیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں اس جانب اشارہ ہو چکا ہے کہ اسمیں سونا اور سانسیں لینا عبادت ہے۔ یعنی عام دنوں میں ہمارا سونا اور سانس لینا ہماری ضرورت ہے، مجبوری ہے لیکن ماہ رمضان میں اللہ نے انہیں ضرورتوں کو عبادت بنا دیا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ رمضان کی آمد پر جو دعا پڑھی۔ اس دعا میں ہے ۔ ’’خدایا! روزوں کے ذریعہ ہماری مدد فرما کہ میرے اعضائے جسمانی تیری نافرمانی سے بچیں اور وہ کام کریں جو تیری خوشنودی کا سبب ہوں۔ ہمارے کان، آنکھ، ہاتھ ، پیر ، پیٹ ،زبان سے تیری نافرمانی نہ ہو بلکہ جس سے تو راضی ہے میں ان سے وہی کام لوں۔‘‘
’’وَسَہلْ سَبيلي إلى خيْراتِہ‘‘ اور اس کی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف میرا راستہ ہموار اور آسان کر۔
انسان کو چاہئیے کہ جہاں اس ماہ میں نماز و روزہ انجام دے۔ بارگاہ خدا میں دعا و مناجات کرے وہیں صدقہ و خیرات کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ شعبانیہ میں اس کا حکم بھی دیا ہے۔ ۔ یتیموں کا خیال کرے۔ روزہ داروں کو افطار کرائے جتنا ممکن ہو ۔
صدقہ و خیرات میں صرف مانگنے والوں کی ہی مدد نہ کرے۔ بلکہ ایسے لوگوں کو تلاش کرے کہ فقر و تنگدستی جنہیں سیر ہونے اور جینے نہیں دیتی اور غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہیں دیتی۔ ورنہ مانگنے والوں کے یہاں تو غذا کا ہمالیہ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن غیرتمند مستحق مغرب کے بعد بھی روزے سے ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح افطار میں بھی ہماری یہی کوشش ہونی چاہئیے کہ روزہ داروں کو دعوت دیں خصوصا مستحق کو۔ پڑوسی کو یا رشتہ دار کو ۔
’’وَلا تَحْرِمْني قَبُولَ حَسَناتِہ يا هادِياً إلى الحَقِّ المُبينِ‘‘ اور اس کے حسنات کی قبولیت سے مجھے محروم نہ فرما، اے آشکار حقیقت کی طرف ہدایت دینے والے۔
انسان وہ عمل انجام نہ دے جو توفیقات کے سلب ہونے کا سبب ہوتے ہیں کہ انسان نیک کام کی ادائگی سے محروم ہو جائے ۔جیسے گناہ و نافرمانی انسان کی توفیق سلب ہونے کا سبب ہیں۔ اسی طرح لقمہ حرام اور دنیا کی محبت بھی انسان کو راہ ہدایت سے محروم کر دیتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .