۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شهادت حضرت علی

حوزہ/حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کی جامع شخصیت نہ صرف مسلمانوں کے لئے نمونۂ عمل ہے بلکہ عالمِ انسانیت کے لئے بھی نمونۂ عمل ہے۔ آپ کے انسانی کمالات، اخلاقی اوصاف اور پاکیزہ زندگی انسانی تاریخ کا روشن باب ہے جس کے گواہ قرآن کریم، حضور اکرم، اصحاب، محدثین اور مورخین ہیں اور ان کی نظر میں آپ علیہ السلام کے فضائل و مناقب عروج پر ہیں۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسیحضرت علی (ع) کے یوم شہادت، آپ کی ذات، سیرت، کردار اور شخصیت کو گہرائیوں سے سمجھنے کا بہترین موقع ہے اور آپ کی شناخت کا ذریعہ قرآن، رسول اکرم، اہل بیت، اصحاب رسول اور خود آپ کی سیرت وکردار ہیں۔

آئیے ایک مختصر نگاہ ڈالتے ہیں۔

امیرالمومنین حضرت علی (ع) کا بچپن، نوجوانی، جوانی، عمر رسیدگی کے سارے ایام کا مطالعہ کریں۔ بچپن کا وہ ماحول جہاں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی زیر سرپرستی آپ کی تربیت ہورہی ہے، نوجوانی کے ایام، مکہ میں بعثت اور دعوت الہی کے سرآغاز اور مشکلات وسختیوں سے بھرپور زمانہ، جوانی مدینہ میں اسلامی معاشرے کا قیام، اسلام کے نشروفروغ، جنگ وجدال اور فتح وکامیابی میں آپ صف اول کے مجاہد وسپہ سالار ہیں۔
جزیرۃ العرب میں اسلام کا پرچم بلند ہوتا ہے، ادھر پیغمبرِ اسلام رحمت خداوندی کے مہمان بنتے ہیں۔ اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر مشورہ اور رہنمائی کا فریضہ اس کے بعد پانچ سال منصب خلافت پر عدل و انصاف اور اسلامی اقدار کااعلی نمونہ آپ نے پیش کیا۔عیسائی محقق جارج جرداق نے آپ کی خلافت کوصوت العدالۃ الانسانیہ یعنی ندائے عدالت انسانی قرار دیا۔
آپ کی زندگی مجاہدت، عبادت، عشق خداوندی، اطاعت رسول، دین کا تحفظ اور اشاعتِ اسلام سے بھری ہے۔مسجد میں شہادت « فزت برب الکعبہ» کے ساتھ آپ نے دنیا کواہم پیغام دیا۔کہ ان تمام لازوال اور عظیم جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد اپنے پروردگار سے شہادت کے ساتھ ملاقات ہے۔
امام علی علیہ السلام کی ولادت اللہ کے گھر میں ہوئی اور اللہ کے گھر میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور آپ کی ولادت و شہادت کے درمیان کی زندگی بھی بندگی، اطاعت وعبادت اور اللہ کی راہ میں گزری، یعنی؛ علی ایک کامل اور کامیاب انسان کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔

آپ کی نظر ظاہری کامیابی پر نہیں، بلکہ اللہ کی رضایت، اطاعتِ رسول اور دین کا تحفظ آپ کا مطمع نظر تھا۔ آپ نے الہٰی وانسانی اقدار اور اصول کومدنظر رکھتے ہوئے زندگی کیا۔
آپ کی انفرادی، گھریلو، اخلاقی، معاشرتی زندگی سب قرآن وسیرت نبوی کا کامل وعملی نمونہ ہے۔کیونکہ آپ کی پرورش بچپن سے ہی پیغمبر کے دامن میں ہوئی ۔نزول قرآن کے ساتھ نوجوانی کے ایام سے نوروحی سے آپ کا وجود روشن اور منور ہوا۔زندگی بھر رسول کے ساتھ سایہ بن کر رہے۔اس لیے آپ کامقام،فضیلت،کمالات اور قربانیاں بھی سب سے نمایاں ہیں۔جس نے پیغمبر کے بعد آپ کومعرفت، علم،تقوی،شجاعت،سخاوت،دیگر تمام اخلاقی اوصاف میں ایک ممتاز مقام امت میں عطاکیاہے۔ان میں سے ایک اہم پہلو سیاسی میدان ہے۔
اپنے دورخلافت میں حکمرانی کاوہ تاریخی نمونہ پیش کیا کہ مالک اشتر کے نام خط (آئین حکمرانی ) بین الاقوامی منشور کاحصہ قرار پایا۔
دنیا میں اقتدار کی خاطر اسلامی وانسانی اصول پائمال کئے جاتے ہیں۔سیاست میں کوئی الہی بلکہ انسانی واخلاقی معیار نہیں،مخالفت میں ہر حدود سے تجاوز،جھوٹ،تہمت،توہین،ضمیرکوچند سکوں کے عوض بیچنا،سیاہ کوسفید،سفید کوسیاہ بنانامعمول ہے۔کرسی،دولت وشہرت کے لیے کسی اخلاقی اصول کی رعایت نہیں کی جاتی۔
مگر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت،زندگی،طرز حکمرانی،دوست ومخالف کے ساتھ روابط کاطریقہ، اقتدار مقصد نہیں،وسیلہ اور ہر چیز میں عدالت کو معیار قرار دینا جسیے اصول آپ سے اسلامی معاشرہ سیکھ سکتاہے۔
اسی بناپر آپ کو شہید عدالت کہاجاتاہے۔آپ نے اقتدار کی خاطر اسلامی وشرعی اصولوں کا سودا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اصول پرڈٹ گئے.
آپ نے امت کو اتحاد،اتفاق اور اخوت وبھائی چارگی کادرس دیا۔اسی لیے مسلمان مفکرین آپ کو وحدت کے لیے اسوہ قرار دیتے ہیں۔آپ نے مسلمانوں کے اندرونی اختلافات میں اسلام وامت کی مصلحتوں ومفادات کو ہرچیز پر ترجیح دی۔اور کسی بھی قسم کے افتراق کی حوصلہ شکنی کی۔علی کا درس اتحاد آج امت کے لیے انتہائی ضروری مسائل میں سے ہے۔یہ اتحاد صرف اسلام ومسلمین کی خاطرتھا۔ہم بھی ان سے درس اخوت لے کر مذہبی،قومی اورلسانی اختلافات کاخاتمہ کرکے ایک پرامن ومحبت والفت پر مشتمل معاشرہ تشکیل دےسکتے ہیں۔
خداوند ہمیں علی علیہ السلام کے طرز زندگی کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے!

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .