حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ممتاز عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ شیخ غلام عباس رئیسی نے شبِ قدر اور شبِ ضربتِ امام علی علیہ السلام کی مناسبت سے دفترِ مجمعِ طلابِ سکردو قم میں منعقدہ مجلسِ عزا سے خطاب کیا اور اعتقادی، اخلاقی، عرفانی اور سیاسی و معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے خطاب کے دوران علمائے کرام اور حوزہ علمیہ قم کے طلباء کو خدا سے غافل نہ ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جو خدا کو بھلاتا ہے وہ اپنے انسان ہونے کو بھی بھول جاتا ہے۔ خدا کو بھولنے کے ساتھ انسان کی ذمہ داری، خلافتِ الہی اور اس کے اشرف مخلوقات ہونے جیسے اہم اہداف کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ خدا پر اعتقاد اور مضبوط ایمان کے بغیر انسان کے حیوان سے مختلف ہونے کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی ہے۔ خدا کے بغیر جیسے اہل مغرب کا خیال ہے کہ انسان ترقی یافتہ حیوان بن جاتا ہے۔ انسان اور انسانیت کا معنی اور مفہوم باقی نہیں رہتا ہے۔
علامہ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ خدا کو اس طرح ماننا چاہئے کہ انسان کے تمام اعضا و جوارح اور افعال و افکار پر خدا کا رنگ غالب آجائے۔انہوں نے مزید کہا کہ خدا کی یاد اور خدا سے رابطہ انسان کے دل میں اطمینان پیدا کرتا ہے، جس کا دل مطمئن ہوتا ہے اس کے جسم میں سکون اور الفاظ میں بھی ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ہم کئی حجابوں کے پیچھے خدا کو مانتے ہیں، ہمارے اور خدا کے درمیان بیسیوں قسم کے پردے ہیں۔ ہم کئی پردوں کے پیچھے سے خدا کو دیکھتے ہیں، اس لئے ہمیں خدا نظر نہیں آتا اور ہماری زندگیوں میں خدا کا رنگ نظر نہیں آتا ہے، خواہشات اور شہوات کے پردے ہمارے اور خدا کے درمیان حائل ہیں، اسی لئے ہمارے قلوب سکون کی دولت سے محروم ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے دل کے اوپر سے یہ سارے پردے ہٹاکر خدا کو دیکھنا چاہئے۔
پاکستان کے برجستہ عالم دین نے دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے دنیا کو امتحان کی جگہ قرار دیا اور مزید کہا کہ ایک طالب علم جو امتحان دے رہا ہے اس کے لئے امتحان میں کامیاب ہونا اہم اور ضروری ہوتا ہے، یہ اہم نہیں ہے کہ اس کو سوال مہنگا کاغذ پر لکھ کر دیں یا کم قیمت اور بے رنگ کاغذ پر لکھ کر دیں، اسی طرح انسان بھی اس دنیا میں امتحان دے رہا ہے اسے اپنے امتحان اور سوالات حل کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے، زندگی کیسے ملی ہے اور مال و دولت کس قدر ملی ہے یہ چیزیں انسان کے لئے زیادہ اہم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مؤمن اور کافر کی نگاہ میں فرق ہے، دنیا سے مومن اور کافر دونوں استفادہ کرتے ہیں، لیکن کافر دنیا اور اس کی آسائشوں کو ہدف سمجھتا ہے جبکہ مؤمن اسے وسیلہ قرار دیتا ہے۔ مؤمن تمام الہی نعمتوں کو حتی شہوات اور خواہشات کو بھی کمال حاصل کرنے، امتحان میں کامیاب ہونے اور خدا تک پہنچنے کے لئے استعمال کرتا ہے اور کافر خواہشات کو وسیلہ قرار دینے کے بجائے ان کی پیروی کرتا ہے، مؤمن خواہشات کی پیروی نہیں کرتا ہے۔انہوں نے سیاست، سیاسی مسائل اور اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ شیعوں کو بصیرت سے کام لینے کی ضروت ہے۔
علامہ موصوف نے کہا کہ کسی جملے کے الفاظ اور اس کے ظاہری معانی سے ہٹ کر حقیقی مطلب، اصلی مقصد، مرکزی نکتے اور واقعی مصداق کو درک کرنے کو بصیرت کہتے ہیں، یعنی سیاسی واقعات کے مرکزی اہداف کو سمجھنا بصیرت کہلاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گیارہ ائمہ علیہم السلام کا ذکر کرنے اور بارہوں امام عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے والوں کو فاسق سیاستدانوں کے پیچھے نہیں جانا چاہئے۔ امامت و ولایت کی خدمت کرنا جن کی ذمہ داری ہو ان کو دنیا پرست سیاستدانوں کی تعریف نہیں کرنی چاہئے۔
علامہ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ انقلابِ اسلامی عظیم نعمتوں اور بصیرت کا سرچشمہ ہے، اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس بصیرت کے چشمے سے استفادہ کرنا چاہئے۔انہوں نے رہبرِ معظم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ رہبرِ معظم صاحبِ بصیرت اور صاحبِ التقوی ہیں۔
علامہ رئیسی نے صلاحیت اور بصیرت کے ساتھ تقوی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صلاحیت و بصیرت کے باوجود اگر تقوی نہیں رکھتے ہو تو خود کو اہم ذمہ داریوں کے لئے پیش نہ کریں۔
استاد حوزہ نے امام علی علیہ السلام کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام علی علیہ السلام نے زندگی کا ہر لمحہ یادِ خدا اور خدا کی طرف سفر میں گزارا ہے۔ علی علیہ السلام کہ جن کا سفر خدا کی طرف تھا کیسے ان لوگوں کے ساتھ چلتے تھے کہ جن کا سفر خدا کی طرف نہیں تھا؟ دو مختلف شہروں کی طرف سفر کرنے والے دو شخص ایک سواری پر سفر نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ صدر اسلام میں اکثر لوگ فقط اور فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت سے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا کرتے تھے، جبکہ معرفت اور ایمان کی دولت سے ان کے دل خالی تھے اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ہی ان کے اسلام و ایمان بھی رخصت ہوگئے، وہ علی علیہ السلام کے ساتھ نہیں چل سکے اور انہوں نے راستے جدا کر لئے۔
علامہ غلام عباس رئیسی نے امام علی علیہ السلام کی گراں قدر قربانیوں اور آپ کے مصائب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام علی علیہ السلام دس سال کی عمر سے لے کر اکیس رمضان چالیس ہجری تک پورے پچاس سال جسمانی اور روحانی اذیتیں برداشت کرتے رہے، جب انیس رمضان کی صبح کو محرابِ عبادت میں ابن ملجم کی ضربت سے آپ کا سرِ مبارک شق القمر ہوا تو آسمان سے ندا آئی آج ہدایت کا ستون گر گیا آج علی مرتضیٰ علیہ السلام شہید ہو گئے۔