حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، صدر پارٹی عراق کے رہنما سید مقتدی الصدر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کر کے افغانستان کے شہر، مزار شریف میں شیعوں کی مسجد پر حملہ اور مسجد اقصیٰ میں ہونے والے واقعات پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے دہشتگردی کے خلاف سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا کہ داعشی اور صہیونی دہشت گردوں سمیت دینِ اسلام سے دشمنی کا مظاہرہ کرنے والوں کے درمیان ایک مشترک بری صفت ہے اور وہ صفت، ماہِ مبارکِ رمضان میں حق اور اہل حق کے ساتھ کھلی دشمنی کا اعلان ہے۔
سید مقتدی صدر نے کہا کہ صہیونیوں نے بیت المقدس کے ساتھ اپنی دشمنی کا اعلان کیا ہے اور داعش اور ان سے تعلق رکھنے والے وصی رسول امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے شیعوں سے وابستہ مقامات مقدسہ اور مساجد سے اپنی دشمنی کا اعلان کر رہے ہیں اور اس طرح وہ صہیونی غاصب حکومت اور بنی امیہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ان دشمنوں پر خدا، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور صہیونیوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے ایک انتہا پسند رہنما کی ان باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں کہ جس نے کہا تھا کہ یہودی دوسروں کے مقابلے میں اسلام کے زیادہ قریب ہیں۔
صدر پارٹی کے رہنما نے کہا کہ منافقت کی حد ہوتی ہے۔ تم افغانستان کی مساجد کو دھماکے سے اڑا رہے ہو اور مقبوضہ فلسطین میں تمہارے بھائی ظلم و جبر، قتل و غارت اور نسل پرستی کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
انہوں نے دہشت گردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مت سمجھو کہ ہم کمزور ہیں۔ ہم دشمنوں کو مزید الزام تراشیوں کا موقع فراہم کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ یاد رکھو ہم دشمنوں کی طرح دہشت گردانہ کارروائیاں نہیں کرتے۔
سید مقتدیٰ الصدر نے افغانستان، فلسطین اور سویڈن میں ڈھائے جانے والے مظالم پر شیعہ سیاست دانوں کی خاموشی اور اثر و رسوخ کی وجہ سے مظلوموں کے قاتل ان شدت پسندوں سے صلح اور تعلقات کو معمول پر لانے والوں پر تنقید کی ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں ان دشمنوں سے قیامت تک بیزاری کا مظاہرہ کرتا رہوں گا۔