۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
استاد علامہ غلام عباس رئیسی

حوزہ/پاکستان کے مایہ ناز عالم دین علامہ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ آج اگر مفتی حضرات اور علمائے اسلام شیعوں کے قتل عام پر سیاسی بیان کے ساتھ ساتھ اس قتل عام کے حوالے سے شرعی فتویٰ بھی جاری کرتے تو شاید اتنا قتل عام نہیں ہوتا، کیونکہ کسی بھی مذہب میں بے گناہ انسانوں کا قتل جائز نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں نمائندۂ ولی فقیہ آیۃ اللہ بہاؤالدینی کے جانشین اور حوزہ علمیہ امام خمینی کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ استاد غلام عباس رئیسی نے قم میں نزولِ قرآن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر مفتی حضرات اور علمائے اسلام شیعوں کے قتل عام پر سیاسی بیان کے ساتھ ساتھ اس قتل عام کے حوالے سے شرعی فتویٰ بھی جاری کرتے تو شاید اتنا قتل عام نہیں ہوتا، کیونکہ کسی بھی مذہب میں بے گناہ انسانوں کا قتل جائز نہیں ہے۔

انہوں نے افغانستان میں حالیہ رونما ہونے انسان سوز واقعات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افغانستان میں شیعوں کے قتل عام پر طالبان کی خاموشی پر شک ہے، کیونکہ ابھی تک امارت اسلامیہ کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ رئیسی نے عالمی سطح پر استکبار جہاں کی سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب افغانستان میں امریکہ کو روس سے لڑنا تھا تو اسلام و کفر کا نعرہ بلند کرکے مجاہدین کی تربیت کی، ایران سے لڑنے کے لئے شیعوں کے خلاف پروپگنڈے کئے اور خودکش بمباروں کی تربیت کی۔

انہوں نے کہا کہ اولی الامر کی اطاعت کے مسئلے میں تبدیلی آئی ہے اور اب وہ حکمرانوں کو حاکم جور اور ان کے لئے خدمت کرنے والوں کو بھی جائز الدم سمجھتے ہیں اور اسی لئے پولیس اور فوجی مارے جاتے ہیں۔

پاکستان کے مایہ ناز عالم دین نے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام پر مفتی صاحبان کی خاموشی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اگر پاکستان میں شیعوں کو کافر قرار دینے اور ان کے قتل عام کے حرام ہونے پر مفتی صاحبان شرعی فتوی دیتے تو شیعہ نسل کشی رک جاتی، لیکن ابھی تک صرف سیاسی بیان پر اکتفا کرتے رہے ہیں اور باقاعدہ طور پر شرعی فتوی جاری نہیں کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سری لنکن آفیسر کے قتل پر سارے مولوی بول اٹھے، لیکن اتنے شیعوں کو مارنے کے باوجود اسے اہمیت نہیں دیتے ہیں اور جب بولتے ہیں تو بھی دو زبان بولتے ہیں۔ ایک میڈیا پر دوسری زبان مسجدوں اور نجی محفلوں میں۔

پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ آیۃ اللہ بہاؤالدینی کے جانشین نے علی علیہ السلام کے ایک فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے خود کو کسی دوسرے کا غلام مت بناؤ۔ خدا نے کافروں کو مومنوں پر کوئی ترجیح نہیں دی ہے، لہذا ہمیں کافروں کے خلاف دوٹوک مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

علامہ غلام عباس رئیسی نے پاکستان میں امریکی اور سامراجی قوتوں کی مداخلت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سے لے کر اب تک امریکہ اپنی مرضی سے حکومتیں بناتا اور گراتا رہا ہے۔

استاد غلام عباس رئیسی نے امام علی علیہ السلام کو درپیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علی علیہ السلام کو اسلامی حکومت کے قیام میں جن مشکلات کا سامنا تھا ان میں سے ایک قران کی مظلومیت اور مہجوریت تھی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں خدا کی بارگاہ میں اس گروہ کی شکایت کرتا ہوں جو جہالت میں زندگی کرتا ہے اور گمراہ رہ کر مرجاتا ہے، یہ گروہ ایسا گروہ ہے کہ ان کے پاس قران سے بھی کم قیمت والی کوئی چیز نہیں ہے۔

انہوں نے علی علیہ السلام کے فرمان کی تشریح کرتے ہوئے مزید کہا کہ گویا یہ لوگ خود کتاب کے امام ہیں قران ان کا امام نہیں ہے، یعنی اپنے مقاصد کے مطابق قران کی تفسیر کرتے ہیں۔ تمہاری بیماری کا علاج قران میں ہے، تمہارے درمیان نظم و ضبط قران کے ذریعے پیدا ہوگا، جان لو قران کے بعد کوئی فقیر نہیں ریے گا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ غلام عباس رئیسی نے انقلابِ اسلامی ایران کی کامیابی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انقلابِ اسلامی سے پہلے علماء کی تحقیر و توہین ہوتی تھی، علماء غربت میں زندگی کرتے تھے امام خمینی (رح) نے قران پر عمل کیا تو علماء کو عزت مل گئی، کیونکہ قرآن کفر، نفاق اور گمراہی سے بچاتا ہے۔

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آنحضرت فرماتے ہیں: جب تمہاری طرف فتنے تاریک راتوں کی طرح ہجوم لائے تو تم قران کے دامن کو تھام لو۔

استاد غلام عباس رئیسی نے قران کو سمجھنے کے ایک معیار اہلبیت علیہم السلام کو قرار دیا اور کہا کہ قرآن صامت کی درست تفسیر قرآن ناطق ہی بیان کر سکتا ہے اور قرآن ناطق اہل بیت علیہم السلام ہیں، لہٰذا ہمیں قرآن کو سمجھنے کے لئے قرآن ناطق اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی اپنے آخری ایام میں اس چیز کی طرف واضح طور پر اشارہ فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت یعنی آپ کی عترت سے مراد، علی و آل علی علیہم السلام تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .