تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے تیرہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں ’’اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَ ياقُرَّة عَيْن الْمَساكينِ‘‘
خدایا! اس مہینے میں مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کر دے اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لئے مقدر ہوئی ہیں، اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق دے، تیری مدد کے واسطے اے مسکینوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
’’اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ ‘‘ خدایا! اس مہینے میں مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کر دے۔
بزرگان دین نے طہارت کی دو قسمیں بیان کی ہیں ایک ظاہری طہارت ہے اور دوسرے باطنی طہارت ہے۔ ظاہری طہارت جیسے لباس اور بدن کی طہارت۔ باطنی طہارت روح کی طہارت ہے۔ انسان اسی وقت منزل کمال تک پہنچ سکتا ہے جب وہ دونوں لہذا سے پاک و پاکیزہ ہو جائے۔
لباس اور بدن اگر گندے ہوجائیں تو انہیں پاک کرنا آسان ہے اور وہ پانی سے پاک بھی ہو جائیں۔ لیکن روح کی طہارت ۔ قلب کی طہارت صرف پانی سے نہیں ہوتی اس کے لئے توبہ کا وضو اور استغفار کا غسل ضروری ہے۔ مثلاً ایک انسان جس پر وضو یا غسل واجب ہے اور اس کے پاس پانی نہیں ہے، اگر ہے بھی تو استعمال نہیں کر سکتا تو شریعت نے اسے تیمم کا حکم دیا ہے ۔ تیمم یعنی مٹی و خاک کے ذریعہ طہارت ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وضو و غسل صرف جسم کو پاک نہیں کرتے بلکہ روح کو پاک کرتے ہیں ۔ اگر پانی میسر نہیں ہے تو خاک میں صلاحیت ہے کہ اسکے باطن کو پاک کر سکے۔
ماہ رمضان المبارک جسے ’’ شهر التمحیص ‘‘ پاکیزگی اور طہارت کا مہینہ کہتے ہیں۔ انسان گیارہ ماہ مختلف طرح کے شیطانی وسوسوں اور خواہشات اور آرزؤں کے سبب اپنے باطن کو محفوظ نہیں رکھ پاتا۔ اب جب یہ مہینہ آتا ہے تو اس میں سب سے پہلے خواہشات پر لگام لگتی ہے۔ انسان چاہے جتنا ہی بھوکا کیوں نہ ہو ، کتنا ہی پیاسا کیوں نہ ہو اور سامنے چاہے کتنی ہی اچھی غذا اور پانی کیوں نہ ہوں شریعت نے حکم دیا ہے کہ اذان صبح سے اذان مغرب تک کچھ نہیں کھانا پینا ہے تو وہ کچھ نہیں کھاتا۔ انسان اپنے اس عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ جب وہ اپنے پروردگار کی اطاعت میں ہوتا ہے تو نہ اسے خواہشات بہکا سکتی ہیں اور نہ ہی آرزوئیں اس کی ثابت قدمی کو متاثر کر سکتی ہیں۔
اس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہر و باطن دونوں کی طہارت کے سلسلہ میں بارگاہ خدا میں درخواست کی ہے اور امت کو تعلیم دی کہ تم بھی ایسے ہی طاہر و پاکیزہ بن جاؤ۔ تب ہی کامیاب ہو پاؤ گے اور منزل تک رسائی ممکن ہو گی۔
ہم روز آنہ اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں کہ جب کسی برتن میں کھانا پکانا مقصود ہوتا ہے تو پہلے اس برتن میں موجود غذا کو خالی کیا جاتا ہے۔ جب برتن خالی ہو جاتا ہے تب اسے دھویا جاتا ہے۔ برتن کے باہر سے زیادہ اندر کی صفائی پر توجہ دی جاتی ہے۔ برتن کے اندر کی صفائی میں صرف گندگی کو نہیں ہٹایا جاتا بلکہ اس کے آثار کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پرانی غذا کا نشان حتیٰ اس کی بو کو بھی ختم کیا جاتا ہے تاکہ جب کوئی نئی غذا پکائی جاے تو پرانی غذا کا رنگ ، بو اور مزہ نئی غذا میں اثر انداز نہ ہو۔ اسی طرح یہ انسان جو ظاہر اور باطن دونوں لحاظ سے کثافت و پلیدی میں ڈوبا ہوا ہے ۔باطنی طہارت کے لئے دنیا اور اس کی خواہشات کو لگام لگائے۔ جب قلب و روح دنیوی خواہشات کی کثافت سے پاک ہو جائیں تو توبہ و استغار اور اس میں بہنے والے اشکوں سے قلب و روح کی ایسی طہارت کرے کہ گناہوں کے آثار مٹ جائیں ۔ اس کے بعد اطاعت و عبادت، دعا و مناجات کے ذریعہ اسے پاکیزہ اور طاہر بنا دے۔ لیکن جو احتیاط کھانا پکنے کے بعد ہوتی ہے کہ برتن دھاک دیا جاتا ہے تا کہ کوئی ایسی چیز اس میں داخل نہ ہو جو اسے نجس، نا پاک یا اسکے بو یا ذائقہ کو تبدیل کر دے اسی طرح جب انسان اپنی روح کو پاک کر لے تو اسکی بھی حفاظت کرے کہ کہیں دوبارہ گناہ اسے نجس نہ کر دیں۔
ظاہر ہے گناہ نجاست ہے ۔ جو انسان کے صرف ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن کو بھی ناپاک بنا دیتی ہے۔ عالم تشیع کے مشہور عالم و عارف جناب مقدس اردبیلی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے شاگرد نے پوچھا کہ کیا آپ گناہ کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا نہیں۔ شاگرد نے پوچھا کہ کیا گناہ کا تصور آپ کے ذہن میں آتا ہے تو آپ نے اس سے سوال کیا کہ کیا تم گندگی و کثافت کو کھا سکتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپ نے پوچھا کیا اسے کھانے کا سوچ سکتے ہو؟ شاگرد نے جواب دیا کہ ہم گندگی کی حقیقت کو جانتے ہیں لہذا کھانا تو دور تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تو جناب مقدس اردبیلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: مجھے بھی گناہوں کی کثافت کا علم ہے لہذا میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتا۔
’’وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ ‘‘ اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لئے مقدر ہوئی ہیں۔
یعنی انسان اللہ کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم ہو جائے اور ہر حال میں اس کے فیصلوں پر راضی رہے۔ آزمائشوں پر صبر کرے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ‘‘اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے خوف و خطر اور کچھ بھوک (و پیاس) اور کچھ مال، جان اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ (یعنی ان میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ)۔ (اے رسولؐ)خوشخبری دے دو ان صبر کرنے والوں کو۔(سورہ بقرہ، آیت ۱۵۵)
جو انسان اللہ کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے اور آزمائشوں پر صبر کرتا ہے تو اللہ اسے بے حساب جزا عطا کرتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مکہ مکرمہ میں جب حضورؐ نے اعلان اسلام کیا تو جن پاک دلوں نے اسلام قبول کیا ۔ کفار و مشرکین انہیں بہت اذیت کرتے تھے۔ جسمیں ایک نمایاں شخصیت موذن اسلام حضرت بلال ؓ کی ہے۔ آپ کو مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین سخت سے سخت سزا دیتے تھے کہ جسے برداشت کر پانا مشکل تھا۔ لیکن جناب بلالؓ نے ان تمام مصائب پر صبر کیا ۔اللہ کی جانب سے ان کو یہ عظیم جزا ملی کہ حکم خدا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کوموذن بنا کر گلدستہ اذان کی بلندی پر پہنچا دیا۔ وہ بلال ؓ جو پہلے اپنے حقیر مالک کی بات پر دوڑتے تھے اب وہ وہ گلدستہ اذان سے جب اذان دیتے تو سارے مسلمان انکی اذان پر مسجد کی طرف چل پڑتے۔
صبر کا کامل و اکمل نمونہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات ہے۔ جیسا کہ ہم انکی زیارت میں پڑھتے ہیں۔ ’’یَا مُمْتَحَنَۃُ امْتَحَنَکِ اللہُ الَّذِی خَلَقَکِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا امْتَحَنَکِ صابِرَةً‘‘ اے آزمائش شدہ بی بی !آپ کا اس اللہ نے امتحان لیا جس نے آپ کو پیدا کیا اس نے آپ کی خلقت سے پہلے ہی آپ کوصابرہ پایا۔
خدا ہمیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر چلنے اور صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
’’وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَ ياقُرَّة عَيْن الْمَساكينِ‘‘ اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق دے، تیری مدد کے واسطے اے مسکینوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک
تقویٰ یعنی انسان گناہوں سے پرہیز کرے ۔ تقویٰ کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے ہے۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں منزل تقویٰ تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان صراط مستقیم کی پیروی کرے، حدودالہی کو اجرا اور اس کی رعایت کرے، روزہ رکھے، الہی پیغام کو یاد رکھے اور خدا کی عبادت کرے۔
اللہ کی نظر میں صاحبان تقویٰ ہی صاحب کرامت و شرافت ہیں۔ جس کے پاس تقویٰ نہ ہو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ۔ روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند جناب اسماعیل کو پتہ چلا کہ مدینہ کا رہنے والا ایک شخص یمن جا رہا ہے۔ ان کے پاس کچھ نقد پیسے تھے چاہا کہ اس سے کچھ منگوا لیں ۔ جب امام جعفر صادق علیہ السلام سےمشورہ لیا تو امام ؑ نے فرمایا لوگ بتاتے ہیں کہ وہ شخص شرابی ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ ممکن ہے لوگ صحیح نہ بتاتے ہوں۔ امامؑ نے فرمایا: بہر حال وہ قابل اعتماد نہیں ہے کہ اسے پیسے دئیے جائیں۔ امام ؑ کے منع کرنے کے باوجود اسماعیل نے اسے پیسے دے دئیے ۔ جب وہ یمن سے واپس آیا تو پتہ چلا کہ سارا پیسہ ڈوب گیا۔ اسماعیل طواف کعبہ کے وقت اپنے پیسوں کے لئے دعا مانگ رہے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے انکے شانے پر مہربانی سے ہاتھ رکھا اور کہا کہ کیوں بلا وجہ دعا مانگ رہے ہو؟ تم نے اسے کیوں پیسے دئیے؟ اسماعیل نے کہا کہ میں نے اسے شراب پیتے نہیں دیکھا تھا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ شرابی ہے۔ امامؑ نے فرمایا: مومنین کی باتوں پر اعتماد کرنا چاہئیےتھا شرابی پر نہیں۔ دیوانوں کو پیسہ نہیں دیا جاتا ، شرابی سے بڑا کوئی دیوانہ نہیں ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: شرابی اگر رشتہ مانگے تو نہ دو۔ اس کو امین نہ بناؤ ۔ اگر شرابی کو رشتہ دیا یا امانت دی تو تم خود اس کے ذمہ دار ہوگے۔ تمہیں حق نہیں کہ خدا سے شکایت کرو۔
نیک لوگوں کی ہم نشینی انسان کو نیک بناتی اور برے لوگوں کی ہم نشینی انسان کو برا بناتی ہے۔ اولو العزم نبی جناب نوح کا بیٹا بروں کا ہمنشیں ہوا تو خاندان نبوت سے خارج ہو گیا۔