اتوار 27 جولائی 2025 - 19:59
امام علی (ع) اور نہج البلاغہ میں دلوں کو مسخر کرنے کے فنون

حوزہ / امام علی علیہ السلام حکمت نمبر 50، نہج البلاغہ میں انسانوں کے دلوں کو وحشی اور صحرائی جانور جیسا قرار دیتے ہیں اور انہیں سدھانے اور ان سے انس و محبت پیدا کرنے کو ان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کنجی قرار دیتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں "دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا طریقہ" بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حکمت 50:

«قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِیَّةٌ، فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَیْه.»

"انسانوں کے دل وحشی اور اور صحرائی جانور کی مانند ہیں، جو ان سے انس پیدا کرے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔"

امام علی (ع) اور نہج البلاغہ میں دلوں کو مسخر کرنے کے فنون

دلوں کو تسخیر کرنے کا طریقہ:

امام علیہ السلام اس حکیمانہ جملے میں دوست بنانے اور دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا اہم سبق دیتے ہیں۔

انسان ان لوگوں کے مقابلے میں جنہیں وہ نہیں جانتا بیگانگی محسوس کرتا ہے لیکن جب کوئی محبت کے ساتھ پیش آتا ہے تو وہ اس سے مانوس ہو جاتا ہے۔

بعض شارحین نہج البلاغہ کے مطابق یہ بات ان لوگوں میں بالکل محسوس کی جا سکتی ہے جو کسی نئے شہر یا محلے میں رہنے آتے ہیں۔ وہ ابتدا میں قریبی ہمسایوں سے بھی اجتناب کرتے ہیں لیکن جب وہ انہیں سلام کرتے ہیں، ملاقات کرتے ہیں اور ہدیہ دیتے ہیں تو ان کے درمیان دوستی قائم ہو جاتی ہے۔

یہ تصور کہ انسان چونکہ فطرتاً معاشرتی ہے اس لیے ہر اجنبی سے فوراً محبت کر لیتا ہے، غلط ہے۔ انس پیدا کرنے کے لیے کچھ مقدمات ضروری ہیں جیسے دشمنی کے لیے بھی مقدمات درکار ہیں۔ امام علیہ السلام نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے جو دیگر روایات میں بھی مذکور ہے جیسا کہ قول معروف ہے: "ألاْنْسانُ عَبیدُ الاحْسانِ" یعنی انسان احسان کا غلام ہوتا ہے۔"

ایک عرب شاعر کا قول ہے:

وَإنّی لَوَحْشِیٌّ إذا ما زَجَرْتَنی *** وَإنّی إذا ألَّفْتَنی لاََلُوفٌ

جب تم مجھ سے دوری اختیار کرو گے تو میں بھی تم سے دور رہوں گا لیکن جب تم محبت کے دروازے سے آؤ گے تو میں تم سے دوستی کروں گا۔

کچھ شارحین کا یہ کہنا ہے کہ یہاں "رجال" سے مراد صرف بڑے اور طاقتور افراد لینا درست نہیں کیونکہ ظاہر عبارت عام انسانوں پر دلالت کرتی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بھی اسی پر شاہد ہے کہ: ثَلاَثٌ یُصْفِینَ وُدَّ الْمَرْءِ لاَِخِیهِ الْمُسْلِمِ یَلْقَاهُ بِالْبُشْرِ إِذَا لَقِیَهُ وَیُوَسِّعُ لَهُ فِی الْمَجْلِسِ إِذَا جَلَسَ إِلَیْهِ وَیَدْعُوهُ بِأَحَبِّ الاَْسْمَاءِ إِلَیْهِ۔

"تین چیزیں ہیں جو ایک مومن بھائی کی محبت کو صاف کرتی ہیں: خوش روئی سے ملاقات کرنا، مجلس میں جگہ دینا اور اسے اس کے پسندیدہ نام سے پکارنا۔" (کافی، ج 2، ص 643، ح 3)

یہ جملہ زمخشری نے (ربیع الابرار) اور طرطوشی (سراج الملوک) نے بھی نقل کیا ہے اور غالباً انہوں نے سید رضی کی نہج البلاغہ سے نہیں لیا۔ بعض کتابوں میں یہ جملہ ایک خطبے کا حصہ بیان کیا گیا ہے جس میں امام علیہ السلام نے دین و دنیا کے آداب بیان فرمائے۔

ماخذ: کتاب "پیام امام امیرالمؤمنین علیہ السلام" (آیت اللہ مکارم شیرازی)، شرح نہج البلاغہ۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha