ہفتہ 30 اگست 2025 - 06:27
نہج البلاغہ کی روشنی میں در حقیقت مومن کی گمشدہ چیز کیا ہے؟

حوزہ / نہج البلاغہ کی حکمت نمبر ۸۰ میں امام علی علیہ السلام نے حکمت کو "مؤمن کی گمشدہ شے" قرار دے کر اس بات پر تاکید کی ہے کہ علم و حکمت کو ہر جگہ سے حاصل کرنا چاہیے حتیٰ کہ اہل نفاق سے بھی۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حکمت کے اصل مالک مؤمن ہیں اور جہاں بھی وہ اسے پائیں، اسے واپس لے لیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں «اہمیت کسب علم و حکمت» کے بارے میں نکات بیان فرمائے ہیں:

حکمت نمبر ۸۰:

«اَلْحِکْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، فَخُذِ الْحِکْمَةَ وَ لَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.»

ترجمہ:

حکمت مؤمن کی گمشدہ شے ہے، پس حکمت کو حاصل کرو اگرچہ منافق سے ہی کیوں نہ لینا پڑے۔

شرح:

امام علیہ السلام نے فرمایا: علم و دانش مؤمن کی گمشدہ شے ہے۔ انسان جب کوئی قیمتی گمشدہ چیز رکھتا ہے تو وہ اسے پانے کے لیے ہر جگہ تلاش کرتا ہے اور جس کے پاس بھی دیکھتا ہے اس سے لے لیتا ہے، چاہے وہ شخص مؤمن ہو یا کافر، منافق ہو یا مشرک، نیکوکار ہو یا بدکار۔

اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ علم و حکمت کے اصل وارث مؤمن ہیں اور منافق و فاسق اس پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں اور بعض اوقات اسے اپنے فاسد مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں لہٰذا مؤمن جہاں بھی حکمت کو پائے، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں بھی اس بات کو وسیع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اعراف آیت ۳۲ میں ارشاد ہے:

"قُلْ مَنْ حَرَّمَ زینَةَ اللّهِ الَّتی أَخْرَجَ لِعِبادِهِ وَالطَّیِّباتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِیَ لِلَّذینَ آمَنُوا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا خالِصَةً یَوْمَ الْقِیامَةِ کَذلِکَ نُفَصِّلُ الاْیاتِ لِقَوْم یَعْلَمُونَ"

(ترجمہ) کہہ دو: کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور پاکیزہ رزق کو؟ کہہ دو: یہ دنیا کی زندگی میں اہل ایمان کے لیے ہے (اگرچہ دوسروں کو بھی حصہ ملتا ہے) اور قیامت کے دن صرف انہی کے لیے خالص ہوگی۔ ہم اپنی آیات کو ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو آگاہ ہیں۔

یہ آیت اگرچہ ظاہری مادی نعمتوں کے بارے میں ہے لیکن معنوی نعمتوں یعنی علم و حکمت، کو بھی شامل ہے۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید میں نقل ہوا ہے کہ ایک دن حجاج نے خطبہ پڑھا اور کہا: "إنَّ اللّهَ أمَرَنا بِطَلَبِ الاْخِرَةِ وَکَفانا مَؤنَةَ الدُّنْیا فَلْیَتَنا کُفینا مَؤنَةُ الاْخِرَةِ وَأُمرْنا بِطَلَبِ الدُّنْیا"

"خدا نے ہمیں آخرت کی طلب کا حکم دیا ہے اور دنیوی روزی کی ضمانت دی ہے، کاش آخرت کو بھی ہمارے لیے ضمانت کر دیتا اور ہمیں دنیا کی طلب کا حکم دیتا"۔

یہ سن کر حسن بصری نے کہا: "هذهِ ضالَّةُ الْمؤمِنْ خَرَجَتْ مِنْ قَلْبِ الْمُنافِقِ"

"یہی مؤمن کی گمشدہ شے ہے جو ایک منافق کے دل سے نکلی ہے"۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۱۸، ص ۲۲۹)

نوٹ: مصادر نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ سید رضی سے پہلے بھی بہت سے علما نے اس حکیمانہ قول کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، جیسے ابن قتیبہ (عیون الاخبار)، ابو علی قالی (امالی)، ابن عبد ربه (عقد الفرید)، اور مسعودی (مروج الذهب)۔ بعض روایات میں آیا ہے: «الْحِکْمَةُ ضالَّةُ الْمُؤمِنِ فَلْیَطْلُبْها وَلَوْ فی أَیْدی أهْلِ الشِّرْکِ» اور بعض میں «وَلَوْ فی أَیْدی أهْلِ الشَّرِّ»۔ ان سب کا مفہوم ایک ہے۔ "تمام نہج البلاغہ" میں یہ قول امام علیہ السلام کی نصیحتوں کے ضمن میں، جو آپ نے اپنے فرزند محمد بن حنفیہ کو فرمائی تھیں، ذکر ہوا ہے۔ (تمام نہج البلاغہ، ص ۶۹۹)

مآخذ: کتاب "پیام امام امیر المؤمنین علیہ السلام"، شرح نہج البلاغہ (آیت اللہ مکارم شیرازی)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha