ہفتہ 11 اکتوبر 2025 - 05:00
کھانے میں میانہ‌روی، ایمان کی علامت

حوزہ/ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: مؤمن اتنا ہی کھاتا ہے جتنا اس کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ کافر پرخور ہوتا ہے۔ مؤمن کھانے میں میانہ‌روی اور سادگی اختیار کرتا ہے، کم کھاتا ہے، کبھی کبھی روزه بھی رکھتا ہے اور دوسروں کے طرزِ زندگی کی تقلید نہیں کرتا۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بھی خبردار کیا کہ انسان کو اپنے ہر نوالے پر دھیان رکھنا چاہیے اور جب سیر ہو جائے تو فوراً دسترخوان چھوڑ دینا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمد ہادی فلاح، جو دینی و معارفی امور کے ماہر ہیں، نے اپنی ایک گفتگو میں "مؤمن اور زیادہ کھانے سے پرہیز" کے موضوع پر روشنی ڈالی۔

پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "مؤمن اور اس کے اہلِ خانہ ایک پیٹ کے برابر کھاتے ہیں، لیکن بے دین اور کافر شخص سات پیٹ بھرتا ہے۔"

مؤمن دوسروں کے طرزِ زندگی سے متاثر نہیں ہوتا، نہ ہی ہر ایک کو اپنا نمونہ بناتا ہے۔ وہ کھانے پینے میں اعتدال اختیار کرتا ہے، اس کا منہ ہر وقت چبانے میں مصروف نہیں ہوتا، اور وہ ہفتے کے کئی دن روزہ رکھتا ہے۔

اس کے برعکس، بے تقویٰ انسان سارا دن اور زندگی کے ہر لمحے کو کھانے اور لذتوں میں گزار دیتا ہے۔

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: "کم من أکلة منعت أکلات" "کیا ہی کم کھانے ایسے ہیں جو انسان کو دوسرے بہت سے کھانے سے محروم کر دیتے ہیں۔"

یعنی انسان کو اپنے ہر نوالے پر دھیان رکھنا چاہیے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہی آخری نوالہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہو۔

زیادہ کھانا نہ صرف جسم پر بوجھ ڈالتی ہے بلکہ روح کو بھی بھاری اور افسردہ کر دیتی ہے۔

لہٰذا، مؤمن کا طریقہ کار اعتدال اور میانہ‌روی ہونا چاہیے۔ بسا اوقات وہ ایک ہی نوالے سے سیر ہو جاتا ہے۔ اور جب اسے سیر ہونے کا احساس ہو جائے یا قریب پہنچے، تو "الحمد للہ رب العالمین" کہہ کر دسترخوان چھوڑ دے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha