۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا سید علی اکبر رضوی

حوزہ/ امام جمعہ والجماعت، جعفری اسلامک سینٹر مپوٹو موزیمبک افریقہ مولانا سید علی اکبر رضوی نے امیر المؤمنین علی ابن طالب (ع) کی ایک حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اَحْسِنْ کَما تُحِبُّ اَنْ یُحْسَنَ اِلَیْکَ؛  نیکی کرو جیسا تم چاہتے ہو تمارے ساتھ نیکی کی جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ والجماعت، جعفری اسلامک سینٹر مپوٹو موزیمبک افریقہ مولانا سید علی اکبر رضوی نے امیر المؤمنین علی ابن طالب (ع) کی ایک حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اَحْسِنْ کَما تُحِبُّ اَنْ یُحْسَنَ اِلَیْکَ؛ نیکی کرو جیسا تم چاہتے ہو تمارے ساتھ نیکی کی جائے۔ (نہج البلاغہ نامہ ۳۱ )

انہوں نے کہا کہ دوسرے مقام پر امام علی علیہ السّلام نے فرمایا: افضل المعروف اغاثة الملھوف. افضل ترین نیکی مظلوم کی مدد کرنا ہے۔

امام جمعہ جعفری افریقہ نے مزید کہا کہ حضرت علی علیہ السّلام السلام فرماتے ہیں: «أحسن الحسنات حبّنا، و أسوأ السیئات بغضنا» نیکیوں میں سب سے بہترین نیکی ہماری محبت ہے اور برائیوں میں سب سے بد ترین برائی ہم اہل بیت علیہم السّلام سے بغض ہے۔ (غرر الحکم ج1 ص 211 )

مولانا سید علی اکبر رضوی نے کہا کہ یوں تو اسلام نے ہمیں بہت ساری نیکیوں کی طرف نشاندہی کی ہے اور ان میں بے شمار ثواب بھی رکھے ہیں نماز، روزہ، حج، زکواۃ، خمس، جهاد، صدقہ، خیرات، تربیت اولاد، احترام والدين، مظلوم کی مدد، تلاش رزق، تحصیل علم اخلاقیات اور ان جیسی بیشمار نیکیاں ہیں، لیکن معصوم امام، اللہ اور رسول کے ولیوں کے ولی حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نیکیوں میں سب سے بہترین نیکی ہماری محبت ہے اور دنیا میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کو بغض اور نفرت ہوگی مگر اھلبیت علیہم السّلام سے بغض رکھنے سے بد تر کوئی بدی نہیں ہے، لہٰذا بہترین انسان وہ ہے جس کے دل میں محبت علی ہے اور بد ترین شخص وہ ہے جس کا دل بغض اہل بیت علیہم السّلام کی آماجگاہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ محبت علی علیہ السّلام اس لئے بھی اہم ہے کہ اس نیکی کے اندر وہ جاذبیت اور مقناطیسی کشش پائی جاتی ہے جو تمام تر نیکیوں کو سمیٹ کر محب علی سے قریب کر دیتی ہے۔

مولانا سید علی اکبر رضوی نے اس حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وَ قَالَ علی علیہ السلام: لَوْ ضَرَبْتُ خَيْشُومَ اَلْمُؤْمِنِ بِسَيْفِي هَذَا عَلَى أَنْ يُبْغِضَنِي مَا أَبْغَضَنِي وَ لَوْ صَبَبْتُ اَلدُّنْيَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى اَلْمُنَافِقِ عَلَى أَنْ يُحِبَّنِي مَا أَحَبَّنِي حوالہ: (نہج البلاغہ حکمت 44) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنی تلوار مؤمن کی ناک پر ماروں اس بات پر کہ وہ مجھ سے بغض رکھے تو وہ مجھ سے بغض نہیں رکھے گا اور اگر دنیا کے سارے خزانے منافق کے سامنے ڈال دوں اس بات پر کہ وہ مجھ سے محبت رکھے تو وہ مجھ سے محبت نہیں رکھےگا، أَنَّهُ قَالَ يَا عَلِيُّ لاَ يُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ وَ لاَ يُحِبُّكَ مُنَافِقٌ چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم سے مؤمن بغض نہیں رکھے گا اور منافق تم سے محبت نہیں کرے گا۔ و هي كلمة حق و ذلك لأن الإيمان و بغضه لا يجتمعان اور یہ حق ہے اور سچ ہے کیوں کی ايمان اور بغض کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ صحاح ستہ میں یہ بھی روایت ہے یا علی آپ سے محبت نہیں کرے گا مگر مؤمن اور آپ سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق۔ لا يحبك إلا مؤمن و لا يبغضك إلا منافق.

انہوں نے کہا کہ اللہ اور رسول سے محبت کا معیار محبت علی ہے، کسی نے پیغمبر سے پوچھا یا رسول اللہ اگر کوئی آپ سے عشق کا دعویدار ہو تو کیسے سمجھیں کہ دعویٰ سچا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو اس کے دل میں علی اور اولاد علی علیہم السّلام کی محبت ہے کہ نہیں، ہے تو دعویٰ میں سچا ہے ورنہ مدعی جھوٹا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .