حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ والجماعت جعفری اسلامک سینٹر مپوٹو موزیمبک افریقہ مولانا سید علی اکبر رضوی نے نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں قساوت قلب کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قساوت قلب یا سنگ دلی ایسی خطرناک بیماری ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر سکتی ہے۔
انہوں نے قساوت قلب اور اس کے اثرات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ. سورۂ البقرہ ﴿۷۴﴾ پھر اس کے بعد بھی تمہارے دل سخت رہے، پس وہ پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے، کیونکہ پتھروں میں سے کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس سے نہریں پھوٹتی ہیں اور کوئی ایسا ہے کہ جس میں شگاف پڑ جاتا ہے تو اس سے پانی بہ نکلتا ہے اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو ہیبت الٰہی سے نیچے گر پڑتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔
مولانا سید علی اکبر رضوی نے مزید کہا کہ ماجرہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل لوگوں کو قتل کرکے الزام دوسروں پر لگا دیا کرتے تھے ان کے ہاتھوں جب ایک قتل ہوا تو اللہ کے حکم سے ایک گائے ذبح کی گئی اور اس کا گوشت مردہ پر مارا گیا تو مردہ گویا ہوا اور قاتل کی نشاندہی کی اس عظیم معجزہ اور بہت سے معجزات دیکھنے کے بعد بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا جس کی وجہ، اللہ نے قساوت قلب بتائی ہے۔
امام جمعہ افریقہ نے کہا کہ قساوت قلب یا سنگ دلی ایسی خطرناک بیماری ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کوتباہ کر سکتی ہے۔ قساوت یعنی احساسات و جذبات کا مردہ ہو جانا اور مزاج میں سختی آنا۔ یہ انسان کے لئے ہر قسم کے جرائم اور گناہ کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ قلب انسان امر و نہی کا مخاطب قرار پاتا ہے، اسی لئے اس پر دھیان دینا ہمارا فرض ہے، ورنہ یہ قساوت قلبی انسان میں نمرودیت، فرعونیت اور آج کی دنیا میں یہودیت و صہیونیت کو جنم دیتی ہے، جس کا ثبوت آپ اسرائیل کے ہاتھوں آج فلسطین میں ہونے والے بے جا ظلم و ستم کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، لہٰذا قلب کو ایک اچھی حالت اور مثبت حالت میں رکھنا ہمارا فریضہ ہے۔
انہوں نے قلب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قلب کو قلب کہا ہی اس وجہ سے جاتا ہے کہ ہمیشہ اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور اسے ثبات و قرار نہیں رہتا اور قلب کے معنیٰ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا ہے۔
مولانا سید علی اکبر رضوی نے قرآن مجید کی روشنی میں قلب کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید نے قلب کی بعض حالتوں کو مثبت اور بعض کو منفی قرار دیا ہے۔ مثبت حالت کی مثال مندرجہ ذیل ہیں: قلب سلیم، قلب مطمئن، قلب لَیِّن ونرم، قلب رابط و پیوند زدہ اور قلب طاہر اور قلب کی منفی حالت کی مثال یہ ہے: قلب مریض، قلب واجف و مضطرب، حلق کو پہنچا ہوا قلب اور قلب مرعوب۔
آخر میں انہوں نے قساوت قلب کا علاج بیان کرتے ہوئے کہا کہ قساوت قلبی کا علاج مندرجہ ذیل اعمال کے ذریعے ممکن ہے: توبہ، ذکر خدا، آیات الہی میں تفکر، استغفار، صلہ رحم اور تلاوت قرآن۔