۲۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 10, 2024
سید علی اکبر رضوی

حوزه/ امام جمعہ افریقہ مولانا سید علی اکبر رضوی نے عقیدہ مہدویت اور انتظار کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بنیادی ترین عقائد میں ایک عقیدہ، مہدویت کا عقیدہ ہے، جو انسان ساز اور قوت صبر و رضا دیتا ہے اور انسانی وجود میں استقامت پیدا کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ و جماعت جعفری اسلامک سنٹر مپوٹو افریقہ مولانا سید علی اکبر رضوی نے مہدویت اور انتظار کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عقیدہ مہدویت کائنات کی ضرورت ہے اور ہم سب اس آخری حجت کے منتظر ہیں، جو ظلم سے بھری ہو ئ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، اسی لئے مسئلہ انتظار پر بہت زور دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام اور معصومین علیہم السّلام نے اس کی بڑی اہمت بیان کی ہے انتظا کو بہترین عمل اور افضل عبادت قرار دیا ہے۔ امام زمانہ کا منتظر اس مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے جس نے پیغمبر کے ہم رکاب ہو کر جہاد کیا ہے۔

انتظار کے سلسلے میں انہوں نے پیغمبرِ اِسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ إفضل العباده انتظار الفرج; بہترین عبادت اور بندگئ خدا امام زمانہ کا انتظار ہے، قال رسول اللہ (ص) افضل إعمال امتى انتظار الفرج; میری امتی کے کاموں میں سب سے افضل کام انتظار فرج ہے۔ امیرالمؤمنیں فرماتے ہیں: (المنتظر لامرنا کالمتشحط بدمه فى سبیل الله. ہمارے امر اور حکومت کا انتظار کرنے والا ایسا مجاہد ہے جو دشمن سے جہاد کرتے کرتے اپنے خون میں غلطاں ہوا۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں : المنتظر للثانى عشر کالشاهر سیفه بین یدى رسول الله یذب عنه; امام زمان کا منتظر ایسا ہے جیسے اپنی تلوار نکالے رسول خدا کےساتھ دشمن سے مقابلہ کر کے اسلامی مقدسات کا دفاع کرے۔

انہوں نے اس سوال کا کہ انتظار یے کیا؟ جواب دیتے ہوئے کہا کہ انتظار کا مطلب سو جانا نہیں ہے، انتظار کا مطلب خواب غفلت نہیں ہے، انتظار کا مطلب سستی کاہلی اور مایوسی نہیں ہے اور انتظار کا مطلب ہاتھ پہ ہاتھ رکھکر بیٹھ جانا نہیں ہے، بلکہ انتظار کا مطلب کردار سازی سماج سازی اور اپنے آپ کو امام کے معیار پر پورا اترنے کے لئے آمادگی ہے۔

مولانا سید علی اکبر رضوی نے انتظار کی کیفیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے امام کا انتظار ویسے کریں جیسے بیٹا اپنے پردیس میں رہنے والے باپ کا کرتا ہے، ہم اپنے امام کا انتظار ویسے کریں جیسے ایک شاگر کلاس روم میں بیٹھ کر اپنے استاد کا کرتا ہے۔ ہم اپنے امام کا انتظار ویسے کریں جیسے ایک مریض بیٹے کو ڈاکٹر کے حوالے کر کے اس کی صحت و سلامتی اور شفایابی کا انتظار اس کا باپ کرتا ہے۔
ہم اپنے امام کا انتظار ویسے کریں جیسے کسان زمین میں بیج بونے کے بعد آب باران کا کرتا ہے،
یعنی ہم میں طلب بھی ہو اور تڑپ بھی ہو۔
یہ انتظار انسان کو صبر اور مقاومت استقامت اور اسلامی قانون پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔

مولانا نے غیبت طولانی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ دشمن نہیں دوست ہیں۔ روایت میں ہے کہ ایک دن شیطان اپنی فعالیت انجام دیکر پلٹاتو کسی نے پوچھا تمہاری خوشی کا راز کیا ہے? شیطان نے کہا شیعوں کی گمراہی انھیں گمراہ کر کے آرہا ہوں کہا اس کا فائدہ کیا ہے؟ جواب: کہا جب ان کا امام آجائے گا تو ہمارا کاروبار گمراہی بند ہو جائے گا اور جتنا یہ گناہ کرتے ہیں اتنا ہی ان کے امام کے آنے میں تاخیر ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ خود امام مہدی علیہ السّلام فرماتے ہیں ولو انا اشیاعنا وفقھم اللہ لطاعتہ علی اجتماع من القلوب فی الوفا بالعھد علیھم لما تاءخر عنهم الیمن بلقائنا۔ اگر ہمارے شیعہ کہ جنکو اللہ نے توفیق اطاعت دی ہے وہ ایفائے عہد جو ان کے شانوں پر ہے انجام دینے میں ایک دل ہوجاتے تو ان کی ملاقات ہم سے جلد ہوتی اور وہ ہمارے دیدار کی سعادت سے فیضیاب ہوتے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .