حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ والجماعت جعفری اسلامک سینٹر مپوٹو موزیمبک افریقہ مولانا سید علی اکبر رضوی نے کہا کہ اخلاص عمل کی روح اور قبولیت اعمال کی ضمانت ہے اور اخلاص سے مؤمن کا درجہ بڑھتا ہے۔
انہوں نے مذکورہ باتوں کی سند کے طور پر امام صادق علیہ السّلام کی ایک روایت پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ قال امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اَلنَّاسُ كُلُّهُمْ هَلْكَى إِلَّا العَالمِونَ ، وَالْعَالمِوْنَ كُلُّهُمْ هَلْكَى إِلَّا الْعَاملوْنَ ، وَالْعَاملوْنَ كُلُّهُمْ هَلْكَى إِلاَّ الْمُخْلِصُونَ، وَالْمُخْلِصُونَ عَلَى خَطَرٍ عَظِيْمٍ۔ سارے لوگ ہلاکت میں ہیں سوائے عالم اور اہل دانش کے، سارے عالم ہلاکت میں ہیں، مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں، سارے عامل ہلاکت میں ہیں، مگر وہ جو اپنے عمل میں مخلص ہیں، کیونکہ اخلاص، عمل کا زیور ہے اور اخلاص توکل علی اللہ کا سبق سیکھاتا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تعلیمات اسلامی کا اصل ہدف فکرو عمل ہے، کہا کہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے ہمارا افسوسناک طرزِ عمل اور طریقہ کار یہ ہے کہ ہم دین کا وہ حصہ قبول کر لیتے ہیں، جو ہمارے نفس کو، ہمارے دل کو اچھا لگتا ہے اور ہمارے مزاج کے مطابق ہوتا ہے اور جو حصہ عملی اعتبار سے ہمیں گراں گزرتا ہے، ہم اسے قبول کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
مولانا سید علی اکبر رضوی نے کہا کہ ہم دین اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں: 1- ایک یہ کہ اولیاء الٰہی انبیاء اور آئمہ علیہم السّلام سے منسوب فضائل و کمالات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں۔ 2- لیکن اس کا دوسرا حصہ اس پر غور وفکر، عمل اور اس پر کار فرما ہوکر استقامت کو بیان نہیں کرتے اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری بات صرف اظہار محبت اور عقیدت سے شروع ہوتی ہے اور محبت اور عقیدت پر ختم ہو جاتی ہے اور پھر سمجھتے ہیں کہ اسی سے ہمارا سارا مسئلہ حل ہو جائے گا، حالانکہ ذکر کے بعد فکری عمل اور عمل کے بعد استقامت کی منزل شروع ہوتی ہے، کیونکہ احکام قرآنی ہوں یا انبیاء الٰہی کے قصے، آئمہ معصومین علیہم السّلام کے واقعات ہوں یا ان کی سیرت کی داستان ان کا تعلق صرف بیان سے نہیں ہے، بلکہ ان کا گہرا تعلق عمل سے ہے اور اسی کو اطاعت اور اتباع کہتے ہیں ہے۔
امام جمعہ افریقہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ محبت کے ساتھ پیروی اور اطاعت اور استقامت یکجا ہوگی، تب کامیابی اور سعادت ملے گی، کہا کہ پھر انسان تو کیا؟ ساتھ میں رہنے والے جانوروں کو بھی نجات ملے گی اور وہ بھی سعادت مند ہو جائیں گے۔ ہماری اس بات پر قرآن مجید کی سورۃ الکہف کی آیات شاہد ہیں کہ جب کچھ لوگوں نے اللہ کی محبت اور کلمہ توحید کا بھرم اس طرح رکھا کہ دقیانوسی حکومت و سلطنت کو چھوڑا اور غار میں چلے گئے، تو ان کی تبعیت اور نگہبانی کرنے والا کتا بھی ایسا سعادت مند ہوا کہ اصحاب کہف کے ساتھ وہ بھی قابلِ ذکر ہو گیا اور قرآن کا حصہ بن گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک اصحاب کہف کی جوان مردی کا ذکر ہو تا رہے گا لازمی طور پر ان کے ساتھ آنے والے کتے کا ذکر بھی ہوگا، یہ ہے اتباع اور استقامت کی طاقت۔
انہوں نے اطاعت کرنے کے فوائد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اولیاء کا اتباع و اطاعت اور عملی استقامت انسان کو قابل ذکر بناتی ہے اور بقاء بھی عطا کرتی ہے، جیسے آئینہ صورت سنوارنے کے لئے ہوتا ہے ویسے ہی اولیائے الہٰی کے نمونے سیرت سنوارنے کے لئے ہوتے ہیں، لہٰذا ہمیں تنہا ذکر و بیان تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ فکرو عمل کے میدان میں قد م جمانا چاہیئے۔