۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا علی اکبر رضوی

حوزہ/ امام جمعہ جعفری اسلامک سینٹر مپوٹو موزیمبک افریقہ، مولانا سید علی اکبر رضوی نے نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے نقطۂ نگاہ سے خوشحال زندگی کے فارمولہ کے عنوان پر روشنی ڈالی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ جعفری اسلامک سینٹر مپوٹو موزیمبک افریقہ، مولانا سید علی اکبر رضوی نے نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے نقطۂ نگاہ سے خوشحال زندگی کے فارمولہ کے عنوان پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین علیہ السّلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: طُوبَى لِمَنْ ذَكَرَ الْمَعَادَ، وَ عَمِلَ لِلْحِسَابِ، وَ قَنِعَ بِالْكَفَافِ، وَ رَضِيَ عَنِ اللَّهِ. دنیا میں خوشحال زندگی اور پر سکون اور مطمئن زندگی گزارنے کا نسخہ اور فارمولہ ہے۔ اچھی زندگی، خوشحال زندگی اور آرام بخش زندگی کا معیار امام نے مادیت کو نہیں، بلکہ روحانیت اور معنویت کو قرار دیا ہے۔

مولانا سید علی اکبر رضوی نے کہا کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: قابلِ تعریف اور خوش نصیب ہے کامیاب ہے وہ شخص جن کے اندر یہ چار صفات پائی جاتی ہیں 1- جو ہمیشہ معاد یعنی قیامت کو یاد رکھے، یعنی اس کی زندگی کا ہر قدم، موت کے تصور کے ساتھ ہو، معاد اس کے ذہن سے نہ نکلے، ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ ہمیں کبھی بھی بلایا جاسکتا ہے یہ زندگی کا سفر کبھی بھی تمام ہو سکتا ہے جیسے دنیا میں آنے میں ہمیں اختیار نہیں تھا ویسے جانے میں بھی ہم خود مختار نہیں ہیں۔

۲۔ جو عمل ہو حساب کے لئے ہو یعنی عمل یہ سونچ کر کرے کہ ایک دن روز حساب ہے جس دن ہمارے اس عمل کو تولا جائے گا اور دیکھایا جائےگا ۔ اور اس کے مطابق جزا اور سزا ملے گی۔ جیسا کی سورہ کھف میں کہا گیا ہے۔ وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا (کہف۴۹﴾ اور نامۂ اعمال (سامنے) رکھ دیا جائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے تفصیلات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں: ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

انہوں نے نیک عمل کی بجا آوری کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی حساب کا خیال ذہن میں رکھ کر عمل کرے گا تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ عمل میں خلوص ہوگا، رضائے الہی کی طلب ہوگی، سنجیدگی اور عمل میں استقامت ہوگی اور سستی، کاہلی، غفلت نہیں ہوگی۔

انہوں نے تیسری صفت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ شخص کامیاب ہے جسے جو روزی دی جائے اس پر قناعت کرے یعنی جو مل گیا اسی کو اپنا حصہ سمجھے اور زیادہ کے لئے لالچ اور حرص نہ ہو اور قناعت یہ ہے کہ زندگی کے لئے جو لازمی چیز ہے وہ حاصل کرلے کیوں کہ اس سے زیادہ مال زمہ داریوں کو بڑھا دیتا ہے اور اس سے کم میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔قناعت کی بڑی اہمیت ہے قول پیغمبر ہے کہ ایک دن پیغمبر اپنے چاہنے والوں کے ساتھ گزر رہے تھے کہ ایک ساربان جو جانوروں کا محافظ تھا حضرت نے اس سے کچھ پینے اور کھانے کا مطالبہ کیا تو اس نے دینے میں کنجوسی دیکھائی اور بخل سے کام لیا اس نے کہا جو دودھ جانور کے اندر اور یا برتن میں ہے وہ ہمارے قبیلے والوں کے لئے ناشتہ اور کھانا ہے اگر دے دوں گا تو ان تک نہیں پہنچے گا۔ حضرت نے اس کے لئے دعا کی اے پروردگار اس کے مال اور اولاد میں اضافہ کر دے اور دوسرے چوپان یعنی جانور چرانے والے کے پاس گئے اور اس بھی اپنی پیاس اور بھوک کا اظہار کیا تو اس نے جو دودھ برتن میں تھا وہ بھی دیا بلکہ جانوروں سے دودھ نکالا اور بڑے احترام کے ساتھ پیغمبر کی خدمت میں لایا اور کہا یہ میری طرف سے ہدیہ ہے پیغمبر نے اس کے لئے بھی دعا کی مگر اس طرح «اللّهُمَّ ارْزُقْهُ الْکَفافِ; اے اللہ تو اس کو اس کی قناعت کے مطابق عطا کر اے اللہ اس کو اتنا عطا کر کہ اس کے لئے کافی ہو جائے یعنی ایک سادہ زندگی گزارنے کے لئے کافی ہو، کچھ لوگوں کو تعجب ہوا کہ پیغمبر نے اس کنجوس کیلئے مال اور اولاد میں اضافہ کے لئے دعا کی اور اس کے لئے مختصر مال کی دعا اور قناعت کی دعا کی جب لوگوں نے پوچھا تو پیغمبر نے جواب دیا «إِنَّ مَا قَلَّ وَکَفَى خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْهَى، کہ تھوڑا مال جو انسانی زندگی کے لئے کافی ہو اس سے زیادہ مقدار کے مال و اولاد سے بہتر ہے جس میں انسان خدا سے غافل ہو جائے۔ (کافی ج2 ص140

انہوں نے کہا کہ چوتھی صفت یہ ہے کہ اپنے رب سے ہمیشہ خوش رہے راضی رہے اس سے بدظن بد گمان اور مایوس نہ ہو، کیونکہ ہم میں سے اکثر ایسے لوگ ہیں کہ معاد پر ایمان تو رکھتے ہیں آخرت پر عقیدہ تو ہے، مگر یا عمل ہی نہیں یا عمل میں کوتاہی ہے اسی کی طرف امام ششم نے اشارہ فرمایا ہے: کتاب کافى میں ہے کہ ایک شخص نے امام سے سؤال کیا «أَلاَ تُخْبِرُنِى عَنِ الاِْیمَانِ أَقَوْلٌ هُوَ وَعَمَلٌ أَمْ قَوْلٌ بِلاَ عَمَل. کیا آپ مجھے باخبر نہیں کریں گے کہ ایمان اعتقاد اور عمل دونوں ہے یا فقط اعتقاد ہے » امام نے جواب دیا : «الاِْیمَانُ عَمَلٌ کُلُّهُ وَالْقَوْلُ بَعْضُ ذَلِکَ الْعَمَلِ; ایمان کامل تو عمل ہے ایمان کا رکن اصلی عمل ہے اور قول یعنی کلمہ تو اس عمل کا کچھ حصہ یے۔ کافی ج 2ص 33۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .