حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ کراچی کے شعبۂ تحقیق اور مرکزِ افکارِ اسلامی کے باہمی تعاون سے "نہج البلاغہ، ذخیرۂ علم و ادب" کے عنوان سے ایک علمی و ادبی سمینار منعقد ہوا۔ جس میں علمائے کرام، اساتذہ، طلباء اور طالبات نے شرکت کی۔

سمینار کا آغاز تلاوتِ کلامِ مجید سے ہوا، جس کی سعادت قاری کاشف رضوانی نے حاصل کی۔ نظامت کے فرائض حجت الاسلام لیاقت علی اعوان اور حجت الاسلام رضا خواجہ نے انجام دئیے۔
حجت الاسلام سید عمار ہمدانی نے سمینار کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں سے شرکاء کو آگاہ کیا۔

سمینار کے دوران نہج البلاغہ کے موضوع پر منعقدہ انعامی مضمون نویسی مقابلے کے منتخب شرکاء نے بھی مختلف زبانوں میں اپنے مضامین کا خلاصہ پیش کیا۔ جن میں ایم فل اسکالر شیرباز نے عربی میں، انور علی نے اردو میں، شعبان علی نے فارسی میں، نعیم شیر نے سندھی اور سید وجیہ حیدر نے انگریزی میں اپنے مضامین کا خلاصہ پیش کیا۔

سمینار میں جامعہ المصطفیٰ کے پاکستان کے لیے نمائندہ حجت الاسلام علی شمسی پور اور مرکزِ افکارِ اسلامی کے سرپرست حجت الاسلام مقبول حسین علوی نے بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کی اور شرکاء سے خطاب کیا۔
حجت الاسلام مقبول حسین علوی نے ابتدائی کلمات کے بعد مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور طلاب و طالبات کی کاوشوں و محنتوں کو سرہاتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے نہج البلاغہ کے عنوان پر یہ نورانی محفل سجائی اور تشنگانِ علم کے لیے علمی موقع فراہم کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو عنوان ہے علم و ذخیرہ اس کو جمع کر کے دیکھیں تو مجھے بہت فخر ہے کہ آپ نے ایک ماہ میں چالیس سے زائد مضامین لکھے؛ یقیناً یہ امام المتقین امام علی علیہ السلام سے محبت کا نتیجہ ہے۔ ہمیں امام کے فرامین پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جس طرح امام نے فرمایا: سلونی سلونی مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کی میں گزر جاؤں۔
مولانا علوی نے طالب علموں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ علم جہاں سے ملے لے لو آپ کے پاس کاغذ اور قلم ہر وقت ہونا چاہیے۔ امام کے کلمات نہج البلاغہ سے استفادہ حاصل کریں جس طرح خود امام نے خطبہ نمبر ایک سو سینتالیس میں فرمایا کہ یہاں سے لے علم یہاں نہ ختم ہونے والا علم کا ذخیرہ موجود ہے۔

انہوں نے نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ایک سو اسی کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ امام نے اپنی داڑھی کو ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ۔اَیْنَ اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ رَكِبُوا الطَّرِیْقَ، وَ مَضَوْا عَلَی الْحَقِّ؟ اَیْنَ عَمَّارٌ؟ وَ اَیْنَ ابْنُ التَّیِّهَانِ؟ وَ اَیْنَ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ؟ کہاں ہیں ؟وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے اور حق پر گزر گئے۔ کہاں ہیں عمار؟ اور کہاں ہیں ابن تیہان؟ اور کہاں ہیں ذو الشہادتین؟ ہم اپنے امام عصر کے لیے عمار بنے تیھان بنے ذو الشہادتین بنے؛ اس سے نہ فقط امام کی حسرت پوری ہوگی، بلکہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ شریف کی حسرت بھی پوری ہوگی ۔امام راحل امام خمینی نہج البلاغہ کے بارے میں کچھ یوں اظہار کرتے ہیں کہ اس کتاب کو ہر مرض کے لیے شفا سمجھے۔ اسی طرح رہبر فرماتے ہیں: نہج البلاغہ انسان کامل کے لیے ایک مکمل برنامہ ہے۔
مولانا مقبول علوی نے مذید کہا کہ استاد فاضل لنکرانی صاحب فرماتے ہیں: نہج البلاغہ کے لیے کیا کہوں کہ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ علی کا کلام ہے۔
پاکستان کے لیے جامعہ المصطفیٰ کے نمائندہ حجت الاسلام علی شمسی پور نے اس نورانی محفل "نہج البلاغہ ذخیرہ علم و ادب" سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے تمام منتظمین، اساتذہ، طلاب گرامی اور طالبات کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اس نورانی محفل کے لیے دن رات جدوجہد کی اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
انہوں نے نہج البلاغہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ کلام ہے جو عصرِ امام علی میں صادر ہوا علی علیہ السلام جو کہ مخزن علم الٰہی ہیں۔ آپ کا کلام نور ہے اور یہ کلام یقیناً ہماری رہنمائی اور تربیت کے لیے ہے۔

حجت الاسلام شمسی پور نے کہا: اگر انسان شناسی، حکمت، پیامبر اور خدا شناسی حاصل کرنا ہے تو نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں حتیٰ کہ مدیریت و نفسیاتی اور معاشی پہلوؤں سے بھی اگر آگاہی حاصل کرنا ہے تو نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ سمینار کے آخر میں مضمون نویسی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ والے طلباء میں انعامات تقسیم کیے گئے۔










آپ کا تبصرہ