حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرجع تقلید، آیت اللہ العظمی حسین نوری ہمدانی نے اپنے ایک پیغام میں زور دیتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ اسلامی معاشرہ کو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ “اصلاح ذات البین” یعنی باہمی صلح و آشتی، رواداری اور دلوں کے قریب لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ دشمنانِ اسلام اور شیطانی طاقتیں اسی وقت معاشرے میں نفوذ کرتی ہیں جب دلوں میں بدگمانی، اختلاف اور دراڑ پیدا ہو جائے۔
یہ پیغام آپ نے “صبر (صلح، بخشش و رضایت) کمیٹی” کی قومی کانفرنس کے نام ارسال فرمایا جس میں آپ نے قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں صلح و اصلاح کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
حضرت آیت اللہ العظمی نوری ہمدانی نے کہا کہ اسلام، دینِ رحمت، انصاف اور اخلاق ہے، جس میں عدالت کے ساتھ احسان اور قضاوت کے ساتھ صلح و گذشت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ آپ نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی وصیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امام نے اپنے فرزندوں امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو نصیحت کی تھی: “تمہیں تقویٰ، اپنے امور کے نظم و ضبط اور اصلاحِ ذات البین کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی عام نماز و روزے سے برتر ہے۔”
مرجع تقلید نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ مومنین کے درمیان دلوں کو قریب لانا، کینہ و دشمنی کو مٹانا، اور ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنا، مستحب عبادات سے بھی زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “اصلاح ذات البین” دراصل دشمن کے نفوذ کا دروازہ بند کرنا اور معاشرتی اتحاد کو مضبوط بنانا ہے۔ وہ معاشرہ جس میں عفو و درگزر زندہ ہو، وہاں نہ خاندانی جھگڑے پنپتے ہیں اور نہ دشمنی کی آگ بھڑکتی ہے۔
آیت اللہ نوری ہمدانی نے فقہی نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اہل بیت علیہم السلام کی فقہ میں قاضی کے لیے یہ مستحب مؤکد ہے کہ فیصلہ دینے سے پہلے فریقین کو صلح کی ترغیب دے، جیسا کہ شیخ محمد حسن نجفی (صاحب جواہر) نے فرمایا ہے: “صلح پر آمادہ کرنا بہتر ہے اور یہ عدل و رحمت کی علامت ہے۔”
انہوں نے “صبر” کمیٹی کی کاوشوں کو عملِ صالح قرار دیتے ہوئے کہا کہ صلح اور معافی طاقت کی علامت ہے، کمزوری کی نہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ یہ کمیٹی صرف مقدمات کم کرنے کا ادارہ نہیں بلکہ ایمان، اعتماد، خاندانی استحکام اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا مرکز ہے۔
آیت اللہ نوری ہمدانی نے قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: “جو شخص معاف کرے اور اصلاح کرے، اس کا اجر خدا کے ذمے ہے” (سورہ شوریٰ: ۴۰)
“اور جو غصے کو پی جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیں، خدا انہیں دوست رکھتا ہے” (سورہ آل عمران: ۱۳۴)
آخر میں آپ نے کہا کہ صلح و بخشش ہمیشہ تقویٰ، انصاف اور رضائے الٰہی پر مبنی ہونی چاہیے اور علمائے دین، معتمدین اور قبائلی عمائدین کو اس کارِ خیر میں پیش پیش رہنا چاہیے۔
انہوں نے قوہ قضائیہ کے اقدامات کو بھی سراہا اور کہا کہ موجودہ عدالتی نظام نے عوام میں عدل و انصاف کی امید کو تازہ کیا ہے، اور اسی طرح صوبہ قم کے فعال و دیانتدار انتظامی حکام کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔
حضرت آیت اللہ نے دعا کی کہ خداوند متعال ملتِ ایران، رہبر انقلاب اور تمام مخلص خدمت گزاروں کو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خاص توجہات سے نوازے، اور ہمارے معاشرے کو باہمی محبت، اتحاد اور اصلاح کے نور سے منور فرمائے۔









آپ کا تبصرہ