حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفٰی العالمیہ پاکستان کے شعبۂ تحقیق کے زیرِ اہتمام اسلامی تہذیب اور مغربی استعمار؛ مزاحمتی جہات کا مطالعہ کے عنوان سے ایک فکری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ یہ نشست المصطفٰی آڈیٹوریم جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جس میں یونیورسٹیز کے اساتذہ، اسکالرز اور طلباء نے شرکت کی۔

فکری نشست سے پاکستان کے نامور اسکالرز اور علماء نے خطاب کیا۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اپنے خطاب میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ بہت اہم موضوع پر جامعۃ المصطفٰی العالمیہ کے شعبۂ تحقیق نے پیش کانفرنس کا انعقاد کیا ہے، کہا کہ اسلامی تہذیب ہمیشہ علم، عدل اور انسان دوستی کی بنیاد پر قائم رہی ہے، جبکہ مغربی استعمار نے دنیا بھر میں اپنے مفادات کے لیے ظلم، جبر اور استحصال کو فروغ دیا۔ استعمار نے خطے میں فلسطین کو کالونی میں تبدیل کیا۔ یہودیوں کی مختصر آبادی فلسطین میں تھی یہ صیہونی تحریک تھی جس نے خطے پر استکبار کے تعاون سے قبضہ کیا؛ استکبار کا طریقہء کار یہی ہے۔
آخر میں جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کی علمی و فکری خدمات کو سراہا اور اس نوعیت کی کانفرنسوں کے تسلسل پر زور دیا، تاکہ نوجوان نسل کو فکری رہنمائی اور اسلامی بصیرت حاصل ہو۔

سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے نشست میں اپنا مقالہ "اسلامی تہذیب اور استعمار کے مقابلے میں خودمختاری" پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں آٹھ سال ایران میں سفیر رہا ہوں چار سال شاہ کے زمانے میں اور چار انقلاب اسلامی کے بعد۔
انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ بیرونی تسلط کے مقابل خود کو کچھ نہیں سمجھتے اس غلط فہمی کو ایران اور مزاحمت نے دور کیا ہے۔ایک قوم کی خود مختاری کے لیے فکری طاقت ہی اصل طاقت ہے تہذیبی صلاحیت ہی بنیاد ہے جو کسی قوم کو مستقل حیثیت دیتی ہیں۔اسلامی جمہوری ایران نے خوف کے تصور کو توڑا ہے۔ہم استعمار کو چیلنج نہیں کر سکتے ایران نے اس کو غلط ثابت کیا ہے۔
پرفیسر ڈاکٹر برگیڈیئر محمد خان سابق ایچ او ڈی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ نے منعقدہ نشست میں اپنا مقالہ "مسلم تہذیب اور مزاحمتی ڈسکورس" پیش کرتے ہوئے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ اس وقت مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں میں استعمار اور مزاحمت پر تحقیق ہی نہیں رہی۔یہ فکری افلاس ہے جس کو دور ہونا چاہیے امام خمینی اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے بار بار استعمار شناسی پر زور دیا ہے۔ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم ستو ن استعمار کو بے نقاب کرنا اور مسلم تہذیب کی بازیافت ہے۔جوان ہمارا سرمایہ ہیں ان پر کام کرنا ہو گا اور انہیں فکری آزادی دلانا ہو گی۔

پروفیسر ڈاکٹر قندیل عباس نے" مسلم تہذیب، مزاحمت اور مغربی استعماریت" کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طاقتور گروہ استعمار گری کو اپنا حق سمجھتے ہوئے اقوام کو غلام بناتے ہیں۔آج اس کا دائرہ کار بہت بڑھ گیا ہے۔آج اگر مغرب کو احساس دلایا جائے کہ ایک آ سکتا ہے کہ کوئی اور طاقتور آپ کو کالونی بنا لے تو یہ لوگ سکتے میں چلے جاتے ہیں۔ایران اور ایرانی قوم نے مزاحمت کی ہے اور ایران واحد ملک ہے جس پر استعمار براہ راست قبضہ نہیں کر سکا؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ ایرانی قوم کسی قبضے کو قبول نہیں کرتی۔

انہوں نے امام خمینیؒ اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے استعمار مخالف پالیسیوں کو بیان کیا۔ انہوں نے دنیا میں استعمار کا تاریخچہ بیان کیا اور اس کے مقابلے میں مزاحمت کو بیان کیا۔
ڈاکٹر رازق حسین ،اسسٹنٹ پروفیسر مسلم یوتھی یونیورسٹی نے اپنا مقالہ" مزاحمت کا ڈاکٹرائین اور استعمار" پیش کرتے ہوئے مزاحمت، استعمار، تہذیب اور استعمار کی وضاحت کی۔
انہوں نے مزاحمت کی نظریاتی،فکری،فقہی اور معاشرتی بنیادوں کو بیان کیا۔

انہوں نے مزاحمت میں ولایت اور ولایت فقیہ کے کردار کو بیان کیا اور بتایا کہ کیسے امام خمینیؒ اور رہبر معظم نے پوری طاقت سے مزاحمت کی بنیادوں کو مستحکم کیا مزاحمت در اصل مغربی تسلط سے مقابلے کا پورا نظام ہے۔مزاحمت میں استعمار کو چیلنج کرنا ہوتا ہے اس میں شکست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔آپ استعمار سے ٹکراتے ہیں اور اس کی قوت کو بار بار چیلنج کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عاصم، سربراہ شعبۂ بین الاقوامی تعلقات گولڈن کالج نے "اقتصاد مقاومتی اور استعمار "کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت ہر میدان میں بہت ضروری ہے۔ایک مقاومت اقتصاد کے میدان میں جاری ہے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین موجود اقتصاد مقاومتی کی شقوں کو بیان کیا اور بتایا کہ کیسے وہ مقاومتی اقتصاد کی بنیاد بنتی ہیں۔امام خمینیؒ کا نعرہ" ما می توانیم" اقتصاد مقاومتی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔امام خمینی کی قیادت اصل جنگ تہذیب کے میدان میں کی گئی ہے۔











آپ کا تبصرہ