حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نمائندہ، حجۃالاسلام و المسلمین سید کمال حسینی نے قم المقدسہ میں مقیم ہندوستانی طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان میں دینی تعلیم و تربیت کی خدمات کو ایک الٰہی فریضہ اور مقدس ہجرت سمجھتے ہیں، نہ کہ صرف ایک ماموریت فریضہ۔
انہوں نے کہا: "ہمیں اس بات پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک میں، جہاں اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں دینی مدارس، علمی مراکز اور مذہبی اداروں کو تقویت دینے کی شدید ضرورت ہے۔"
حجۃ الاسلام و المسلمین حسینی نے طلاب پر زور دیا کہ وہ "سماعت، انتخاب اور اقدام" کے قرآنی اصولوں کو اپنی علمی، تبلیغی اور انقلابی زندگی کا مرکز و محور بنائیں، اور صرف تعلیم حاصل کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ میدانِ عمل میں بھی نمایاں کردار ادا کریں۔
انہوں نے طلاب کے لیے چار اہم ذمہ داریوں کی نشاندہی کی:
1. شیعہ حوزات علمیہ کی تقویت
2. اہل سنت کے مدارس کے ساتھ علمی اور تقریبی روابط کا فروغ
3. ہندوستانی یونیورسٹیوں میں اسلامی معارف کا تعارف
4. فرق و مذاہب کے ساتھ علمی اور اعتقادی مکالمہ
انہوں نے ان نکات کے ساتھ ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طلاب کو تاکید کی کہ وہ مال، قدرت، علم، شہرت اور لغزشوں سے محفوظ رہیں، اور انفرادی و اجتماعی تقویٰ کے ساتھ اپنے علمی سفر کو جاری رکھیں۔
حجۃ الاسلام و المسلمین حسینی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ جن علوم کی ضرورت ہے، ان میں فقہ و اصول، عربی ادب، علم کلام، تفسیر اور فنِ تبلیغ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا: "ہمارا فریضہ ہے کہ ہم نہ صرف ہندوستانی طلاب کی علمی سطح کو بلند کریں، بلکہ ان کی دینی مہارتوں کو بھی مضبوط بنائیں تاکہ وہ وطن واپس جا کر دین کی مؤثر تبلیغ کر سکیں۔"
آخر میں انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ جامعۃ المصطفیٰ ایران میں ایڈمیشن کے مراحل میں ان طلاب کو ترجیح دی جائے گی جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہندوستان واپس جا کر خدمت کا عزم رکھتے ہوں۔ نیز، داخلے کے مراحل میں قرآن خوانی اور زبانِ فارسی پر مہارت کو لازم قرار دیا جائے گا۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر کئی اہم دینی، علمی اور انتظامی امور زیرِ بحث آئے، اور طلاب نے اپنے سوالات اور تجاویز بھی پیش کیے۔









آپ کا تبصرہ