حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج کی پُر آشوب دنیا میں، جہاں گہرے دینی تصورات پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہیں، نہج البلاغہ ایک روشن چراغ کی طرح انسانوں کی خوشی اور انصاف کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
حوزه نیوز نے حجت الاسلام والمسلمین مہدی ارفع، نہج البلاغہ اور اسلامی علوم کے محقق اور مبلغ کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں اس بیش بہا کتاب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
اس گفتگو میں نہج البلاغہ کو جامع اور عملی نظر سے دیکھتے ہوئے اس کتاب کے مطالعے کی ضرورت، آج کی دنیا میں اس کی جگہ اور اس کے معارف سے زیادہ انس کے عملی راستوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
انہوں نے ابتدا میں اس بیش بہا کتاب کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا: نہج البلاغہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے: پہلا: نہج البلاغہ ثقافت زندگی اور دینی حکمرانی کے میدان میں یکتا اور اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔
دوسرا: یہ کتاب تمام قوموں اور لوگوں کے لیے ایک مشترکہ زبان کا کام کرتی ہے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے شیعوں سے خطاب میں بھی مباحث کو عقلی اور فطری دلائل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس کی واضح مثال نہج البلاغہ کے خط نمبر 31 میں امام حسن مجتبیٰ (ع) کے نام ہے۔ یہ خط اتنا جامع اور ہمہ گیر ہے کہ اگر مصنف اور مخاطب کا نام ذکر کیے بغیر دیگر ادیان کے پیروکاروں کے سامنے رکھا جائے تو وہ سب اس کے مواد کو عقلمندانہ اور حکیمانہ پائیں گے۔
تیسرا: نہج البلاغہ پورے جہان میں انقلاب اسلامی کی گفتگو کو پھیلانے اور عمیق کرنے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ اسلام ناب کے تصور کو اپنے مخاطبوں،حتی ناقدین اور مخالفین تک پہنچانے کے لیے نہج البلاغہ سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امت اسلامی کے موجودہ اور مستقبل کے مسائل کا جامع حل "نہج البلاغہ" ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین مہدی ارفع نے نہج البلاغہ کے مطالعہ کی اہمیت و ضرورت اور آج کی زندگی پر اس کے محسوس اثرات کو بیان کرتے ہوئے کہا: اس کا ایک منفرد نقطہ نظر ہے جو عقلی اصولوں اور قرآن کریم کی آیات پر مبنی ہے، جو انسانی معاشرے کی اصلاح اور سعادت، امن و سکون تک رسائی کو صالح حکمرانوں کی حکومت سے مشروط قرار دیتا ہے۔ یہ اصول نہ صرف سماجیات کے مختلف مکاتب فکر میں قبول کیا گیا ہے بلکہ قرآن کریم میں بھی اس کی طرف "الذین إن مکناهم فی الأرض أقاموا الصلاة و آتوا الزکاة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنکر" کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پیامبر اکرم (ص) نے مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلا کام حکومت کی تشکیل کیا۔
انہوں نے نہج البلاغہ میں تدبر کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے کہا: ہم اس عظیم کتاب میں تدبر کی روش چار مراحل میں انجام دیتے ہیں۔ ہمارے تجویز کردہ طریقے سے دو دوروں کے مطالعہ کے بعد، پڑھنے والا تدبر کے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
پہلا مرحلہ: اس مرحلے میں مطالعہ پہلے خط سے شروع کرتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ: سید رضی کی نمبرنگ پر اکتفا کرنے کے بجائے، ہم قاری سے کہتے ہیں کہ ہر خط پڑھنے کے بعد اس کے لیے خود ایک عنوان منتخب کرے جو اس کے مرکزی پیغام کو ظاہر کرے۔
یہ جان کر آپ کو دلچسپی ہوگی کہ ہمارے گیارہ سالہ تجربے میں، یہاں تک کہ مڈل اسکول کے طلباء بھی درست اور گہرے عنوانات منتخب کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پس اگر ہم لوگوں کو سوچنے کا موقع دیں تو وہ گہرے تصورات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تیسرا مرحلہ: درس اور عبرتوں کا استخراج ہے۔ درس وہ مثبت نکات ہیں جن پر عمل کر کے اس وقت کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور عبرتیں وہ غلطیاں ہیں جنہیں دہرایا نہیں جانا چاہیے۔ البتہ ہر درس یا عبرت خط کے متن کے کسی جملے سے مستند ہونا چاہیے تاکہ اپنی طرف سے تفسیر سے بچا جا سکے۔
چوتھا مرحلہ: تدبر کا آخری اور اہم مرحلہ ان درس اور عبرتوں کو اپنے اور معاشرے کے لیے عملی ہدایات میں تبدیل کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، جب حضرت علی علیہ السلام حسد کے بارے میں فرماتے ہیں: "عجبت للحاسد کیف غفل عن سلامة الجسد" (مجھے حسد کرنے والے پر تعجب ہے کہ وہ اپنے جسم کی سلامتی سے کیسے غافل ہے)، یا حکمت 289 میں فرماتے ہیں کہ "انسان کو دو کاموں میں سے مشکل تر کو منتخب کرنا چاہیے"، تو ان تصورات کو زندگی کے لیے عملی رہنما اصولوں میں تبدیل ہونا چاہیے۔
تدبر کے مرحلے میں نکالے گئے نکات دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ پہلی قسم انفرادی نکات ہیں جو لالچ، حسد، قربانی اور بخشش جیسے موضوعات سے متعلق ہیں۔ جب انسان ان نکات کو اپنی زندگی کے ساتھ جوڑتا ہے، تو اس کا نتیجہ نفس کی پاکیزگی اور اخلاقی ترقی ہوتی ہے جو نہج البلاغہ کے مطالعے کے سب سے خوبصورت نتائج میں سے ہے۔
نہج البلاغہ اور اسلامی علوم کے اس محقق اور مبلغ نے مزید کہا: انفرادی نکات کے درمیان اجتماعی نکات بھی موجود ہیں جنہیں آج کے معاشرے پر لاگو کرنے سے گہری بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر، جب رہبر انقلاب فرماتے ہیں کہ "اگر مدافعان حرم نہ ہوتے تو آج ہم کرمانشاہ اور تہران میں لڑ رہے ہوتے"، تو یہ بات بالکل نہج البلاغہ کی خطبہ نمبر 27 کی یاد دلاتی ہے۔ اس خطبہ میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام معاویہ کے لوٹ مار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کس طرح عراق کے شہر یکے بعد دیگرے تباہ ہو گئے، اور آپ یاد دلاتے ہیں کہ انہوں نے حکومت کے آغاز سے ہی دن رات واضح انداز میں اور خفیہ طور پر لوگوں کو شام میں پیشگی جنگ کی دعوت دی۔










آپ کا تبصرہ