۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 377531
18 فروری 2022 - 22:21
عرفان حیدر

حوزہ/ امام علی (ع) اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا (س) کی بیٹی جناب حضرت زینب (س) کی ولادت پانچ جمادی الاولی پانچویں یا چھٹے سال کو مدینہ منورہ میں ہوئی، جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پانچ سال کی عمر میں اپنی والدہ سے محروم ہوگئیں اس طرح آپ بچپن سے ہی مصیبتوں میں گرفتار ہوئیں۔ آپ نے اپنی بابرکت زندگی میں بہت سے مصائب کا سامنا کیا، اپنے والدین کی شہادت سے لے کر اپنے بھائیوں اور بچوں کی شہادت تک اور اسیری جیسے تلخ واقعات بھی آپ سلام اللہ علیہا نے برداشت کئے۔

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسیامام علی (ع) اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا (س) کی بیٹی جناب حضرت زینب (س) کی ولادت پانچ جمادی الاولی پانچویں یا چھٹے سال کو مدینہ منورہ میں ہوئی، جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پانچ سال کی عمر میں اپنی والدہ سے محروم ہوگئیں اس طرح آپ بچپن سے ہی مصیبتوں میں گرفتار ہوئیں۔ آپ نے اپنی بابرکت زندگی میں بہت سے مصائب کا سامنا کیا، اپنے والدین کی شہادت سے لے کر اپنے بھائیوں اور بچوں کی شہادت تک اور اسیری جیسے تلخ واقعات بھی آپ سلام اللہ علیہا نے برداشت کئے، لیکن ان تمام سختیوں نے آپ سلام اللہ علیہا کو صابرہ اور بردبار بنا دیا۔(1) آپ سلام اللہ علیہا کے القابات: محدثہ، عالمہ اور فہیمہ ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا متقی، عابدہ، زاھدہ، عارفہ، خطیبہ اور پاکدامن خاتون ہیں۔ نبوی اور علوی کی پرورش اور خدا کے فضل نے آپ کو نمایاں اوصاف و خصائل کی حامل بنا دیا، جس کی وجہ سے آپ کو "عقیلہ بنی ہاشم" کہا جاتا ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا زاد جناب حضرت "عبداللہ ابن جعفر" سے شادی کی اور اس شادی کے نتیجے میں اللہ نے انہیں اولاد جیسی نعمتوں سے نوازا جن میں سے دو (محمد اور عون) علیہما السلام نے کربلا میں حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں اور امام علیہ السلام کے رکاب میں جام شہادت نوش فرمایا (2)۔

وفات:

آپ علیہا السلام 15 رجب 62 ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔
ہم اس مختصر مقالے میں آپ سلام اللہ علیہا کے بعض فضائل و مناقب کی طرف نہایت اختصار کے ساتھ اشارہ کریں گے:

1- باپ کی زینت:

عموماً والدین ہی بچے کا نام انتخاب کرتے ہیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے وقت ان کے والدین نے یہ کام آپ کے نانا جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کردیا اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر پر تھے، سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولادت کی خبر سنتے ہی امام علی علیہ السلام کے گھر جاکر نواسی کو گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا اس کے بعد وحی الہی کے مطابق زینب نام رکھا، جس کا مطلب ہے "باپ کی زینت" (3)۔

2- علم الہی:

دوسری مخلوقات پر انسان کی سب سے اہم برتری حتیٰ کہ فرشتوں پر بھی اس کا علم اور بصیرت ہے۔ ''وعلم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علی الملائکة فقال انبئونی باسماء هؤلاء ان کنتم صادقین . قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم."اور آدم ع کو کچھ اسماء کی تعلیم دی گئی اور پھر اس نے انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے ہم سوائے ان چیزوں کے جن کی تو نے ہمیں تعلیم دی ہے نہیں جانتے۔ بیشک تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (4) اور اعلیٰ ترین علوم وہ علوم ہیں جو براہ راست ذات الٰہی سے انسان تک پہنچے ہوں یعنی ان کے پاس علم لدنی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وعلمناه من لدنا علما."ہم نے خود اپنے پاس سے اسے بہت سے علوم سکھایا۔"(5) امام سجاد (ع) کی گواہی کے مطابق زینب (س) کے پاس ایسا علم ہے، یعنی علم لدنی جو خود ذات الہی سے کسب کیا گیا ہے۔ جہاں انہوں نے اپنی پھوپھی کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’آپ عالمہ غیر معلمہ اور فھیمہ غیر مفھمہ ہے۔(6)

3- عبادت اور بندگی:

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے قرآن سے سیکھا تھا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد خدا کی بندگی میں کمال تک پہنچنا ہے۔"ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون."ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا سوائے میری عبادت کریں۔‘‘(7)
آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے والدین کی عبادت اور نماز شب کو قریب سے دیکھا تھا۔ آپ سلام اللہ علیہا کربلا میں گواہ تھیں کہ آپ کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے شب عاشورا جناب حضرت عباس علیہ السلام سے فرمایا: ارجع الیهم واستمهلهم هذه المشیة الی غد لقد نصلی لربنا اللیلة وندعوه ونستغفره فهو یعلم انی احب الصلوة له وتلاوة کتابه وکثرة الدعاء والاستغفار'' ان کے پاس جاؤ اور کل تک کے لیے آج کی رات مہلت لے لو تاکہ ہم اپنے خدا کے حضور آج کی رات دعا اور استغفار کرتے ہوئے گزار سکیں۔ "خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز اور قرآن کی تلاوت سے کتنا عشق یے اور بہت زیادہ دعائیں اور استغفار کرنا مجھے پسند ہے۔"(8) ان جملوں میں ہم جناب امام حسین ع کی واجبات کی ادائیگی کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ امام ع کو عبادت اور نماز سے جو عشق ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی راتوں کو عبادت کیا کرتی تھیں اور کوئی بھی مصیبت انہیں عبادت سے نہیں روک سکی۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: «ان عمتی زینب کانت تؤدی صلواتها، من قیام الفرائض والنوافل عند مسیرنا من الکوفة الی الشام وفی بعض منازل کانت تصلی من جلوس لشدة الجوع والضعف. میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا تمام واجب اور مستحب نمازوں کو کوفہ سے شام تک کے راستے میں ادا کیا کرتی تھیں اور راستے میں بعض لوگوں کے گھروں میں بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔"(9)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کی حساس ترین رات جو کہ اپنے بھائی سے وداع کی رات تھی اس میں بھی نماز تہجد اور شب بیداری کو ترک نہیں کیا۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:" واما عمتی زینب فانها لم تزل قائمة فی تلک اللیلة ای عاشرة من المحرم فی محرابها تستغیث الی ربها وماهدات لناعین ولا سکنت لنا زمرة. "میری پھوپھی زینب شب عاشورا پوری رات بیدار اور خدا کی عبادت اور راز و نیاز میں میں مشغول رہی جبکہ اس رات، ہم میں سے کوئی نہیں سویا اور ہماری آہیں بند نہیں ہوئیں۔"(10) امام حسین (ع) معصوم ہیں اور واسطۂ فیض الہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بہن جو کہ عابدہ زاہدہ ہیں الوداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختاه لا تنسینی فی نافلة اللیل. بہن جان! " نماز شب میں مجھے مت بھولنا!"(11) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بندگی اور عبادت کے اس اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔

4۔عفت اور پاکدامنی:

عفت اور پاکدامنی عورت کی سب سے خوبصورت زینت اور ان کے لیے سب سے قیمتی جواہر ہیں۔ حضرت زینب (س) نے اپنے والد کے مکتب سے عفت کا سبق سیکھا تھا، جہاں انہوں نے فرمایا:"ما المجاهد الشهید فی سبیل الله باعظم اجرا ممن قدر فعف یکاد العفیف ان یکون ملکا من الملائکة. خدا کی راہ میں شہید ہونے والے مجاھد کو اس شخص سے زیادہ اجر نہیں دیا جاتا جس کے پاس طاقت ہے، لیکن وہ عفت اور پاکدامن ہے۔ عفت اور پاکدامنی کے مالک شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔"(12) زینب کبری سلام اللہ علیھا نے انتہائی مشکل اور دشوار حالات میں بھی اپنی عفت کا مظاہرہ کیا۔ اسیری کے دوران کربلا سے شام جاتے ہوئے اپنی عفت کا مظاہرہ کیا۔ مورخین نے لکھا ہے: "وهی تستر وجهها بکفها، لان قناعها قد اخذ منها."وہ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپاتی تھی، کیونکہ آپ کی چادر آپ سے چھین لی گئی تھی۔"(13)
زینب سلام اللہ علیہا کو وہ سب کچھ وراثت میں ملا جو آپ کی ماں جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس تھا۔سیدہ زینب سلام اللہ علیہا وہ خاتون تھیں جنہوں نے حیا و عفت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے یزید کو للکارا: "امن العدل یا بن الطلقاء تحذیرک حرائرک و امائک و سوقک بنات رسول الله سبایا؟ قد هتکت ستورهن و ابدیت وجوههن. اے ناجائز ماں کے ناجائز بیٹے، کیا یہ انصاف ہے کہ تم اپنی ازواج اور کنیزوں کو پردے کے پیچھے رکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں اور ان کے خاندان کو قیدی بنائے؟ اور ان کے سروں سے چادریں چھینی جائے؟(14)

5- ولایت مداری:

قرآن بغیر کسی شرط کے، خدا کی مطلق اطاعت کے بعد، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت یعنی ائمہ (علیہم السلام) کی اطاعت کا حکم دیتا ہے: اطیعوا الله واطیعوا الرسول واولی الامر منکم. خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ (15)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ولایت مداری کے تمام پہلوؤں میں سات معصوم علیہم السلام سے کسب فیض کیا تھا (امام کی معرفت، تسلیم، رضا، ولایت کا تعارف اور اس کی راہ میں قربانی) یہ سب آپ سلام اللہ علیہا نے سات اماموں سے سیکھا تھا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کس طرح ایک ماں نے اپنے آپ کو اپنے زمانے کے امام پر قربان کردیا تھا اور اپنے امام سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ: روحی لروحک الفداء ونفسی لنفسک الوقاء"[اے ابوالحسن] میری جان آپ کی جان پر قربان ہو اور میری روح آپ کی روح کی ڈھال ہو۔"(17) آخرکار جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کی حمایت میں اپنی جان قربان کر دی اور ولایت و امامت کی راہ میں شہید ہو گئیں۔ زینب (س) نے ولایت مدرای کا سبق اپنی والدہ سے سیکھا اور اس کا کربلا میں عملی طور پر مظاہرہ کیا، چنانچہ آپ سلام اللہ علیہا نے ایک طرف الزامات کی تردید کرتے ہوئے اور اہل بیت کے فراموش کیے گئے حقوق کی یاد دلا کر ولایت اور امامت کو متعارف کرانے کی کوشش کی؛ من جملہ، شہر کوفہ کے خطبے میں فرمایا۔ وانی ترحضون قتل سلیل خاتم النبوة ومعدن الرسالة وسید شباب اهل الجنة.
آخری نبی کے بیٹے اور جوانان جنت کے سردار کے قتل کا داغ آپ کیسے دھویں گے؟"(18)
آپ سلام اللہ علیہا نے ابن زیاد کے دربار شہر شام اور یزید کی مجلس شھرکوفہ میں بھی ولایت اور امامت کا بھر پور طریقے سے تعارف کرایا۔(19)
آپ امامت کے سامنے سر تسیلم خم کرتی تھیں چاہئے امام حسین علیہ السلام کا دور ہو یا امام سجاد علیہ السلام کا دور، حتیٰ کہ اس وقت جب خیمے کو آگ لگائی گئی تھی، یعنی امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں، آپ س امام کے پاس آئی اور کہا: اے میرے بھائی کی یادگار دشمنوں نے خیموں کو آگ لگائی ہے ہم کیا کریں؟ امام ع نے فرمایا: علیکن بالفرار. فرار کریں۔(20) اور بھی کئی جگہوں پر زینب علیہا السلام نے امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور امامت کا دفاع کیا اور آخری دم تک امام ع کی حمایت کی:
1- عاشورہ کے دن؛ جب امام حسین علیہ السلام نے اتمام حجت کی خاطر مدد طلب کی تو آپ ع کے بیمار بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام میدان کی طرف نکلے جناب زینب س نے امام کو میدان جنگ میں جانے سے روکنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن سے فرمایا: بیٹا سجاد کو واپس لے جاؤ اگر وہ بھی شھید ہو گئے تو پیغمبر کی نسل زمین پر منقطع ہو جائے گی (21)۔
2- عصر عاشورا کے بعد جس وقت دشمنوں نے خیموں پر حملہ کیا، شمر نے امام سجاد علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جناب زینب علیہاالسلام نے فریاد بلند کی اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں، میں زین العابدین کی حفاظت کروں گی۔ اے شمر اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو پہلے مجھے قتل کرو، دشمن نے یہ حالت دیکھ کر امام کو قتل نہیں کیا۔ (22)۔
3۔جب ابن زیاد نے امام سجاد علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو حضرت زینب علیہا السلام نے آپ کو گلے لگایا اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے زیاد کے بیٹے! اپ بس کرو تم نے بہت خون بہایا ہے۔ ہمارے خاندان کو قتل کرنے کا سلسلہ بند کرو اور فرمایا: والله لا افارقه فان قتلته فاقتلنی معه. خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گی۔"اگر تم اسے شہید کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ شہید کرو" ابن زیاد نے حضرت زینب س کی طرف دیکھا اور کہا: اس رشتہ داری سے حیران ہوں میں چاہتا ہوں اسے علی ابن الحسین کے ساتھ قتل کر دوں، البتہ ابن زیاد کے پاس اس بات کو سمجھنے کی اوقات نہیں تھیں کہ یہ حمایت صرف قرابت داری کی وجہ سے نہیں بلکہ ولایت اور امامت کے دفاع کے لیے بھی ہے، اگر بات صرف خاندان اور رشتہ داری کی ہوتی تو زینب (س) اپنے بچوں کی جان بچاتی اور انہیں میدان جنگ میں نہیں بھیجتی۔

6۔عظیم جذبہ اور بلند حوصلہ:

المناک واقعات اور مصیبتوں میں جو چیز انسان کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے وہ حوصلہ اور جذبہ ہے اگر کسی شخص میں اہم اور حساس کام کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہو گا اور وہ ناکام ہو سکتا ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سب سے اھم خصوصیات میں سے ایک ان کا عظیم جذبہ اور حوصلہ ہے۔ آپ نے اپنی والدہ کی شہادت کے بعد اپنے والد اور بھائیوں کو حوصلہ دیا اور ان کو دلاسہ دیا۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت میں آپ نے پسماندگان کو تسلی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اور اسیری کے دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی یہ خصوصیت زیادہ ظاہر ہوئی۔ آپ سلام اللہ علیہا ہمیشہ غمخواروں کی مددگار اور اسیروں کے لیے پناہ گاہ تھی، کربلاء کی مقتل گاہ سے لیکر کوفہ کی تنگ و تاریک گلیوں تک، ابن زیاد کی مجلس سے لے کر یزید کے دربار، ہر جگہ اسیروں کو بچانے والی فرشتہ نما شخصیت زینب سلام اللہ علیہا تھی۔ آپ نے فرمایا: لا یجز عنک ما تری، فو الله ان ذلک لعهد من رسول الله الی جدک وابیک وعمک. اے بھائی کی یادگار! جو تم دیکھ رہے ہو (والد کی شھادت ) آپ کو بے صبری نہیں کرے۔ خدا کی قسم! "یہ رسول خدا کا اپنے آباؤ اجداد، باپ اور چچا سے وعدہ ہے۔"(23)

7۔صبر:

انسان کامل کی سب سے بڑی خصوصیت، زمانے کی نشیب و فراز اور سختیوں میں صبر کرنا ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیاتوں میں صابرین کے لئے عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی ہے۔ (24) زینب سلام اللہ علیہا اس سلسلے میں کمال کے عروج پر ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے میں، ہم پڑھتے ہیں:" لقد عجبت من صبرک ملائکة السماء"آپ کے صبر پر آسمان کے فرشتے حیران ہوئے۔" بالخصوص عاشورا کے دن، آپ سلام اللہ علیہا نے ایسے صبر و تحمل، تسلیم و رضا کا مظاہرہ کیا کہ اس پر خود صبر شرمندہ ہوا۔جب ابن زیاد ملعون جناب زینب سلام اللہ علیہا کے زخم پر نمک چھڑکنے اور آپ س کو اذیت پہنچانے کے لیے کہتا ہے: "کیف رایت صنع الله باخیک واهل بیتک." آپ نے اپنے بھائی اور خاندان کے ساتھ خدا کے کام کو کیسے پایا؟"درحقیقت وہ ملعون کہنا چاہتا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ جناب زینب سلام اللہ علیہا جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں، گویا آپ سلام اللہ علیہا نے اس ملعون کے منصوبوں کے بارے میں سوچ کر جواب تیار کر لیا ہے۔ اپنے دل میں صبر اور اطمینان کے پرسکون اظہار کے ساتھ، آپ نے فرمایا: ما رایت الا جمیلا."میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔"(25) ابن زیاد ایک اسیر عورت کے جواب پر حیران ہوتا ہے اور اس کے اس عظیم مصیبتوں پر صبر اور استقامت پر حیران ہوتا ہے، اور آپ سلام اللہ علیہا کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔

8۔ایثار اور فداکاری:

بلند مرتبہ والے انسانوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو خود پر مقدم کرتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "الایثار اعلی الایمان." ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ فداکاری اور ایثار ہے۔(27)؛ اور فرمایا: الایثار اعلی الاحسان. (28)؛ ایثار اور فداکاری سب سے بڑا احسان ہے۔ اس صفت میں جناب زینب سلام اللہ علیہا سب سے آگے ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا دوسروں کی جان بچانے کے لیے ہمیشہ خطرات مول لیتی ہیں اور واقعہ کربلا میں آپ سلام اللہ علیہا نے پانی بھی پیا اور بچوں کو دے دیا۔ کوفہ اور شام کے راستے میں اگرچہ آپ خود بھوکھی اور پیاسی تھیں لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنے ایثار اور فداکاری کا مظاہرہ کیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "انها کانت تقسم ما یصیبها من الطعام علی الاطفال لان القوم کانوا یدفعون لکل واحد منا رغیفا من الخبز فی الیوم واللیلة."میری پھوپھی زینب کو جو کھانا دشمن دیا کرتے اسے بھی بچوں میں تقسیم کیا کرتی تھیں چونکہ دشمن ھم میں سے ہر ایک کو دن رات ایک ایک روٹی دیتے تھے۔"

9- ہمت اور بہادری:

اولیاء اللہ کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ خدا ان کی نظروں میں بڑا ہے اور اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں ان کی نظروں میں پست اور بے اثر ہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "عظم الخالق فی انفسهم فصغر ما دونه فی اعینهم."خالق ان کی روحوں میں عظیم ہے اور خالق کے علاوہ باقی چیزیں ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہیں۔" اولیاء اللہ کی بلند ہمت کا راز یہی ہے۔ زینب سلام اللہ علیہا جو اس طرح کا نظریہ رکھتی ہیں اور ایک ہمت والے گھرانے میں پرورش پائی۔ اسی لیے آپ سلام اللہ علیہا قاتل کی خون آلود تلوار سے نہیں ڈرتی اور کہتی ہیں: کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں؟ ابن زیاد کی مجلس میں اس کی ظاہری طاقت کی پرواہ کیے بغیر آپ سلام اللہ علیہا ایک کونے میں بیٹھ کر ابن زیاد کے سوالوں کو نظر انداز کر کے اسے ذلیل و خوار کرتی ہیں، اسے "بدکار" اور "فاسق و فاجر" کہتی ہیں اور خود کی پہچان اسطرح کرواتی ہیں: الحمدلله الذی اکرمنا بنبیه محمد صلی الله علیه و آله وطهرنا من الرجس تطهیرا وانما یفتضح الفاسق ویکذب الفاجر وهو غیرنا. خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے نوازا اور ہمیں ہر قسم کی ناپاکی سے پاک کیا۔ "صرف فاسق ہی رسوا ہو گا اور فاسق جھوٹ بولے گا اور وہ ہمارے علاوہ ہے۔"(30)

10۔فصاحت و بلاغت:

کوئی بھی خطیب جو فصاحت و بلاغت سے بات کرنا چاہتا ہے، خدادادی صلاحیت کے باوجود اسے کئی بار مشق کرنی چاہیے، فصیح خطبہ دینے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل طور پر تیار ہونا ضروری ہے اور سامعین کو اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے، ورنہ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو نہ صرف آپ کا خطبہ سن رہے ہیں بلکہ آپ پر پتھر مار رہے ہیں اور آپ بغیر کسی تیاری کے، پیاس، بھوک، اسیری کی حالت میں اور آپ کا پورا خاندان آپ کی آنکھوں کے سامنے شھید ہوگیا تھا، اس کے باوجود آپ سلام اللہ علیہا کی آواز بلند ہوتی ہے اور ایک تاریخی خطبہ دیا :اے اہل کوفہ! اے دھوکے باز اور بے وفا» حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کے ضمیر کو بیدار کر دیا اور مرد و خواتین، بوڑھے اور جوان سب کے رونے کی آوازیں بلند ہوگئی۔ خزیم اسدی کہتے ہیں: میں نے زینب کو دیکھا، خدا کی قسم، میں نے کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو سر سے پاؤں تک حیاء اور عفت اور پاکدامنی کی مالک ہو، ان سے زیادہ فصیح ہو، گویا زینب سلام اللہ علیها امام علی علیہ السلام کی زبان بول رہی ہو۔
ھومو کہتا ہے: میں نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا، رونے کی وجہ سے اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی اور اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کے بزرگان بہترین بزرگان ہیں، آپ کے جوان بہترین نوجوان ہیں، آپ کی خواتین بہترین خواتین ہیں،آپ کی نسلیں بہترین نسل ہیں،جو نہ ذلیل ہوئی اور انہوں نہ ہی شکست کھائی بلکہ آپ کامیاب ہوگئے۔(31)

حوالہ جات :

(1)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج 3، ص 46 .
(2)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج 3، ص 210
(3)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج ص39۔
(4)۔سورہ بقرہ آیت32/31۔
(5)۔سورہ کہف آیت 65۔
(6)۔شیخ عباس قمی، منتهی الآمال، (تهران، علمیه اسلامیه، چاپ قدیم، 1331 ه . ش) ج 1، ص 2 98 .
(7)۔سورہ زاریات آیت 65۔
(8)۔محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری، ج 6، ص 238 .
(9)۔ ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(10)۔ ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(11)۔ھمان۔
(12)۔نهج البلاغه، فیض الاسلام، حکمت 466 .
(13)۔جزائری، الخصائص الزینبیه، ص 345 .
(14)۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، (بیروت، دار احیاء التراث العربی)، ج 45، ص 134 .
(15)۔سورہ نساء آیت /59 .
(17)۔الکوکب الدری، ج 1، ص 196.
(18)۔ بحار الانوار (پیشین)، ج 45، ص 110- 111 .
(19)۔بحار الانوار
(20) ۔ بحار الانوار، ج 45، ص 58، ومعالی السبطین، ج 2، ص 88۔
(21)۔بحار الانوار، (پیشین)، ج 45، ص 46 .
(22)۔بحار الانوار۔
(23)۔بحار الانوار.
(24)سورہ بقرہ آیت 154۔
(25)۔سورہ بقرہ
(26)۔ میزان الحکمة، ج 1، ص 4 .
(27)۔ میزان الحکمة، ج 1، ص 4 .
(28)۔ریاحین الشریعة، (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(29)۔نهج البلاغه، فیض الاسلام، خطبه 182.
(30)۔زیارت نامه حضرت زینب علیها السلام
(31)۔ زیارت نامه حضرت زینب علیها السلام، ج 45، ص 108 و ص 110.

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .