۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
عرفان حیدر بشوی

حوزہ/ شیعہ سنی روایات میں ایک ایسے مصلح کا انتظار کرنے کو عبادت قراردیا گیا ہے جو انسانی معاشروں کی ناگفتہ بہ حالت کو ٹھیک کرے گا اور وہ انسانی معاشرے سے ظلم، ناانصافی، جنگ، خونریزی اور کرپشن کا خاتمہ کرے گا۔

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی|

مقدمہ:
شیعہ سنی روایات میں ایک ایسے مصلح کا انتظار کرنے کو عبادت قراردیا گیا ہے جو انسانی معاشروں کی ناگفتہ بہ حالت کو ٹھیک کرے گا اور وہ انسانی معاشرے سے ظلم، ناانصافی، جنگ، خونریزی اور کرپشن کا خاتمہ کرے گا۔
اس وقت پوری دنیا ناامید ہوچکی ہے، تمام لوگ ظلم و فساد سے تنگ آچکے ہیں۔ ایسے میں کرہ ارض پر ایک ایسا گروہ بھی ہے جس کا مستقبل پر امید ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ گروہ خوشی کے ساتھ ایک منجی [نجات دینے والے] کا منتظر اور اس ہستی کے ظہور کے لیے راہ ہموار کرنے میں کوشاں ہے۔ یقینا ایسا کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا مترادف ہے۔ وہ گروہ اپنی زندگی میں یہ آرزو رکھتا ہے کہ وہ اس ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس کے ساتھ زندگی کے کچھ لمحات بسر کرے تاکہ اس کے معنوی فیوضات سے بہرمند ہوسکے جس کے نتیجئے میں کمال انسانی کی چوٹی پر فائز ہوجائے ۔ اسی لئے یہ گروہ نہ صرف اپنے آپ کو اس ہستی کے دیدار کے قابل بنانے میں لگا ہوا ہے بلکہ دن رات اس کی یاد میں مضطرب اور اس کے ظہور کی دعاوں میں مشغول ہوتا ہے ۔ عالم اسلام کےدو اہم فرقوں [شیعہ و سنی ]کے ابتدائی منابع میں نقل ہونے والی احادیث و روایات میں اس مصلح اور منجی کو "مہدی" کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ متفقہ احادیث کے مطابق یہ ہستی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہیں ۔ بس اتنا سا فرق ہے کہ مسلمانوں میں بعض ان کی غیبت پر اعتقاد رکھتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک ان کی ولادت ابھی ہونی ہے۔

امام مہدی علیہ السلام کا انتظار:

جن مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا یہ فرزند اس دنیا میں آچکے ہیں اور وہ اس وقت غیب کے پردے میں موجود ہیں ان کے ہاں روایات کی کثیر تعداد کتابوں میں نقل ہوئی ہے ان روایات کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار افضل ترین عبادتوں میں سے ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:ہمارا قائم مہدی علیہ السلام ہے ان کی غیبت کے دوران ان کا انتظار کرنا واجب ہے ۔ اس انتظار کا اجرو ثواب آئمہ علیہ السلام سے منقول ہے جیسے فرمایا گیا ہے جو شخص ہمارے امر (حکومت) کا منتظر ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہوتا ہے- انتظار اس طرح ہونا چاہیے کہ کوئی بھی لمحہ غافل نہ ہو۔ صادق آل محمد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: "وانتظرو الفرج صباحاً و مساء" تم لوگ صبح و شام ظہور کا انتظار کرو۔

تمام انبیاء الہی اور اولیاء الہی کا مقصد اور ہدف یہ تھا کہ دنیا میں عدل اور انصاف قائم کرے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے جو الہی اور توحیدی ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں حدود الہی اور احکام الہی کو مکمل طور پر جاری کرسکے تاکہ اس طرح دنیا اور آخرت کی سعادت سے فیض یاب ہو جائیں۔

انتظار کامعنی و مفہوم:

اس کا لغوی معنی انتظار کرنا ،فکر کرنا ہے۔(1)
انتظار ایک ایسی حالت ہے جس کی وجہ سے انسان تیار ہوجاتا ہے اس کا برعکس مایوسی سے عبارت ہے۔(2)
انتظار عام طور پر کسی ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو موجودہ حالات سے خوش نہیں ہے اور بہتر صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اصطلاح میں انتظار کا مطلب باطل قوتوں پر حق کی فتح وکامیابی، امن اور انصاف سے بھرے معاشرے، انسانی اقدار کے مکمل اور جامع قیام، ریاست مدینہ کی تشکیل، توحید پرست معاشرے کی تشکیل ہے۔ اور یہ انتظار صرف امید اور خواہش سے نہیں بلکہ عمل کے بعد ہوتا ہے۔

انتظار کا معنی اثبات اور سلب دونوں پہلو کا حامل ہوتا ہے:

۱۔ پوری کائنات سے ظلم، شرک اور فساد کا خاتمہ سلبی پہلو ہے ۔ ۲۔ توحید پرست معاشرے کی تشکیل اور عدل کا قیام اثبات کا پہلو ہے۔

امام زمان علیہ السلام کا انتظار کرنا بہترین عمل:

بہت سی روایات میں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے انتظار کو اعلیٰ ترین اور اعلیٰ اعمال کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
یہ مضمون بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوا ہے؛
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: افضل اعمال امتى انتظار الفرج من اللَّه عز و جل ؛
میری امت کا سب سے بہترین عمل انتظار فرج ہے۔(3)
انتظار فرج سب سے بڑی عبادت کیوں ہے؟
یہ سوچنا غلط ہے کہ سب کچھ معجزات اور دعاؤں سے ہوتا ہے۔ روایات کے مطابق امام زمانہ علیہ السلام کا انتظار سب سے بڑی عبادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا سب سے زیادہ اثر اس شخص پر ہوتا ہے جو انتظار کر رہا ہوتا ہے-جو شخص امام زمانہ علیہ السلام کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، وہ اس امام کے قریب جانے اور اپنے کردار و رفتار کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔حسد، بغض، منافقت اور غلط کاموں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور اپنے آپ کو اخلاقی اوصاف سے آراستہ کرتا ہے ۔(4)
اگر میں خود گناہگار ہوں تو میں تبدیلی اور انقلاب کا کیسے انتظار کروں جس کا پہلا شعلہ مجھے پکڑے؟
اگر میں ظالم ہوں تو کسی ایسے شخص کا انتظار کیسے کروں جس کی تلوار سے ظالموں کا خون بہایا جایے گا اور اگر میں کرپٹ اور غلط ہوں تو ایسے نظام کا کیسے انتظار کروں جس میں کرپٹ اور غلط لوگوں کا کوئی کردار نہ ہو بلکہ مسترد کر دیا جائےگا۔
کیا یہ انتظار میری روح، دماغ کو پاک کرنے اور میرے جسم اور روح کو نجاست سے دھونے کے لیے کافی نہیں ہے؟
سچے انتظار کرنے والوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کو بھی درست کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ وہ جس انقلاب کا انتظار کر رہے ہیں وہ انفرادی منصوبہ نہیں ہے۔ وہ تو ایک ایسا پروگرام ہے جس میں سب کو حصہ لینا چاہیے۔ اجتماعی اور عوامی ہونا سطح پر اس کے بارے میں منظم فعالیت ہونی چاہئے اور آپس میں ہم آہنگی کی گہرائی اور وسعت اتنی ہی عظیم ہونی چاہیے جتنی عالمی انقلاب کے پروگرام کی ہوتی ہے۔
پس حقیقی انتظار کرنے والے اپنی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
نتیجہ
ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ہمیں انتظار کے حکم کے ساتھ اس کے طریقے اور روش کی بھی تعلیم دی ہے نیز ان ہستیوں نے اپنی زندگی میں اس عمل کو سب سے بہترین عمل کے طور پر متعارف کرانے کے ساتھ اس کے بارے میں خصوصی تاکید فرمائی ہیں ۔ لہذا اگر کوئی اپنے آپ کو ان ہستیوں کا پیروکار سمجھتا ہے یا ان کی محبت کے دم بھرنے کا دعوا کرتا ہے تو اسے چاہیَے اپنی زندگی بھی ان ہستیوں کے مطابق گزارے ۔ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے شب و روز کے اعمال و عبادات میں سے ایک اہم عمل اس مصلح اور منجی جسے ان ہستیوں نے "قائم" کے عنوان سے یاد فرمایا ہے ، کا انتظار تھا اور ہمیں بھی یہی درس دیا ہے کہ اپنی زندگی کا مقصد امام زمان علیہ السلام کے دیدار کو قرارد یں ۔ پس ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایسے اعمال بجالائیں جس سے اس کے وقت کا امام راضی ہو، اگر امام راضی ہوں گے تو وہ ظہور فرمائیں گے جب ظہور فرمائیں گے حدیث کے مطابق دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا اور دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا یوں ہم اپنی زندگی کے مقصد تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے۔
اگر ہم اپنے آپ کو اس ہستی کے دیدار کے قابل بنائیں گے تو خدا ہمیں اس عظیم الٰہی شخصیت کی زیارت نصیب کرے گا۔

حوالہ جات:

(1)۔تاج العروس، ج 7، ص 539.
(2)۔ راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القرآن، ص 628،
(3)۔بحارالانوار؛ ج 13؛ ص 137.
(4)۔ گفتار معصومين(ع) ؛ ج 1 ؛ ص204.

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .