۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
امام زمانہ

حوزہ/اسلامی معتبر کتب میں سلسلۂ امامت کی بارہویں کڑی حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اصحاب کی مخصوص صفات اور خصوصیات بیان ہوئی ہیں اس مختصر مقالے میں ہم ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے-

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو یقین تھا کہ فرعون اور اس کا لشکر اس نومولود بچے کو قتل کر دیں گے، حضرت موسی ع کی والدہ یہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے!؟ خدا کی جانب سے الہام ہوا: "ڈرو مت اسے دودھ پلاؤ" جب خطرہ بڑھ جائے اور آپ کو خوف ہو کہ بچہ دشمن کے ہاتھ میں پہنچ جائے گا تو اس وقت آپ بچے کو دشمن کے حوالہ نہ کرے بلکہ بچے کو دریا میں پھینک دو۔ آخر ایک ماں اپنے بچے کو صندوق میں ڈال کر اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں پھینکنا کیسے برداشت کرتی؟ الہام ہوا اور ماں سے کہا :ہم آپ کے بچے کو واپس لوٹا دیں گے اور ہم اسے رسول بنادیں گے چنانچہ ہم نے اس بچے کو اس کی ماں تک لٹا دیا۔ تاکہ اس ماں کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ اداس نہ ہو- حضرت موسیٰ ع کی والدہ نے اللہ کے وعدے کو پورا ہوتے ہوے دیکھا۔ اللہ کے قطعی وعدوں میں سے ایک وعدہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہے۔ یہ ایک ایسا وعدہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء اور اولیاء کو دیا ہے۔ پیامبر گرامی اسلام ص نے فرمایا: "اے لوگو ! تمہارے لیے امام مہدی (عج) کے ظہور کی خوشخبری دیتا ہوں جو ایک اٹل حقیقت اور خدا کا وعدہ ہے خدا اپنے کیے ہوے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور وہ اپنے فیصلے کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا، بیشک خدا حکیم اور باخبر ہے اور خدا کی فتح اور آسائیش قریب ہے۔(1)
جی ہاں! یقینا امام زمانہ ع ضرور ظہور فرمائیں گے، جس طرح حضرت موسیٰ کو ان کی والدہ کے پاس واپس لوٹا دیا اور نبوت پر فائز ہوگئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کہاں ٹہرے ہوئے ہیں؟ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے اپنے آپ کو نہ بنائیں اور امام زمانہ ع کے ظہور کے لیے راہ ہموار نہ کریں ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین میں شمار نہیں ہونگے! پس اگر ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی اصحاب و اعوان میں سے شمار ہونا چاہیں تو ہمیں چاہیے ہم سب سے پہلے امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی خصوصیات اور صفات سے آشنا ہوجائیں،ان خصوصیات اور صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس عظیم الہی وعدے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور ناصرین کی کچھ خصوصیات ہیں ہم یہاں مختصر طور پر کچھ صفات اور خصوصیات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

1۔خدا اور بندوں کی باہمی محبت:

امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی پہلی خصوصیت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 54 میں مذکور ہے جو دیگر صفات کے لئے سرچشمے کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ "یہ لوگ خدا سے محبت اور عشق کرتے ہیں اور خدا کی رضا اور خشنودی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے ہیں یہ خدا کو چاہتے ہیں اور خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا بھی ان سے محبت کرتے ہیں(یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ)

کون سے لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں؟

منتظرین حقیقی امام زمانہ علیہ السلام خدا سے محبت کرتے ہیں،امام کے بتائے ہوے اصولوں اور احکام کی پیروی کرتے ہیں اور امام کی اطاعت کرتے ہیں۔
(إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی)
اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے(پیغمبر) پیروی کرو(2)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ بعض اوقات، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو خوش کرتا ہے اس کے باوجود ہم اس کام سے غفلت برتتے ہیں اور اسے انجام نہیں دیتے اسی طرح بعض اوقات ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو ناراض کرسکتا ہے اس کے باوجود ھم اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اپنے آپ کو شیطان کے دھوکے کی وجہ سے روک نہیں سکتے ہیں۔ امیر المومنین ع سے روایت ہے کہ آپ ع نے فرمایا:
الْقَلْبُ‏ الْمُحِبُ‏ لِلَّهِ‏ یُحِبُّ کَثِیراً النَّصَبَ لِلَّهِ وَالْقَلْبُ اللَّاهِی عَنِ اللَّهِ یُحِبُّ الرَّاحَةَ
خدا سے محبت کرنے والا دل خدا کی راہ میں مصائب اور مشقت کو برداشت کرتا ہے اور وہ دل جو خدا کی یاد سے بے خبر ہو وہ سکون اور راحت طلب ہوتا ہے۔(3)

انسان اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اس کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس کی خاطر زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرلیتا ہے،جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے زحمت اور مشقت برداشت کرکے اپنی نیندیں اس بچے پر قربان کر کے لطف اندوز ہوتی ہے اسی طرح منتظر واقعی بھی امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر مختلف مشکلات اور سختیاں برداشت کرتا ہے یہ روایت اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے: جو دل خدا سے محبت کرتا ہے وہ خدا کی راہ میں مشقتیں اور زحمتیں برداشت کرتا ہے لیکن وہ دل جو خدا کی محبت سے غافل اور عاجز ہے وہ سکون طلب اور سستی کا طالب ہوتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک خوبصورت روایت میں اس دوستی کا معیار یوں بیان کیا ہے:
فَإِنَّ کُلَّ مَنْ خُیِّرَ لَهُ أَمْرَانِ: أَمْرُ الدُّنْیَا وَ أَمْرُ الْآخِرَةِ، فَاخْتَارَ أَمْرَ الْآخِرَةِ عَلَى الدُّنْیَا فَذَلِکَ الَّذِی یُحِبُّ اللَّهَ
جس شخص کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا جایے ، ایک دنیا ہے اور دوسری آخرت، اگر وہ آخرت کو ترجیح دے تو واضح ہو جائے گا کہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔لیکن اگر وہ دنیاوی معاملات کو آخرت پر ترجیح دے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی کوئی اہمیت نہیں ہے نعوذ باللہ اور خدا کی مرضی اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ ہماری محبت خدا کی نسبت کتنی گہری ہے؟ اور ہم اللہ تعالی کی کتنی قدر کرتے ہیں؟
حضرت امام مہدی عج کے اصحاب امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح خدا کی رضا اور آخرت کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کے عہدوں، اور وقتی لذتوں کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی، وہ اپنے محبوب کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پس امام مھدی ع کے اصحاب اس آیت کا مصداق تام ہے (یحبھم و یحبونه)

2.مؤمنين کے سامنے عاجز اور دشمنوں کے سامنے سرسخت ہونا:

منتظرین اور اصحاب امام زمانہ ع کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مومنین کے آگے حلیم اور مہربان ہوتے ہیں اور کافروں کے لیے سرسخت ہوتے ہیں۔‘‘
أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الکافِرینَ
امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین اور اصحاب مومنین کے ساتھ تکبر، اور غرور سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔لیکن کفار اور منافقین کے سامنے نرمی سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔

3۔خدا کی خاطر جہاد کرنے والے:

امام ع کے اصحاب اور منتظرین ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔
(یجاھدون في سبيل للہ)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام مہدی کے اصحاب خدا کی راہ میں شہید ہونا چاہتے ہیں۔(4)
البتہ جہاد سے مراد جہاد اصغر اور جہاد اکبر دونوں ہیں-امام علی (ع) فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب کے ایک گروہ کو کہیں فوجی آپریشن کے لئے بھیجا اور جب وہ واپس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: "مبارک ہو تم لوگوں نے جہاد اصغر کوتو انجام دیا ہے لیکن جہادِ اکبر ابھی باقی ہے۔ اسی دوران اصحاب میں سے ایک صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ، جہاد اکبر سے کیا مراد ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔(5)
دینی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت اور دفاع اگرچہ واجب ہے ؛ لیکن اسے جہاد اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اپنے ھوا و ہوس کے خلاف لڑنے اور اپنی شہوتوں پر کنٹرول کرکے اپنے نفس سے لڑنے کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جی ہاں، امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین ہمیشہ شياطين کا مقابلہ کرتے ہیں اور ہمیشہ عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں -امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: میں امام زمانہ علیہ السلام کےاصحاب کو دیکھ رہا ہوں گویا وہ سب سجدے میں ہیں وہ راتوں کو شب بیداری کرتے ہیں، عبادت الہی میں گزارتے ہیں اور دن کو جہاد میں مشغول رہتے ہیں یعنی جہاد بالنفس ۔(6)

4۔اچھے اخلاق کا مالک ہونا:

امام زمانہ ع کے اصحاب اور منتظرین کی ایک اور خصوصیت اچھے اخلاق کا حامل ہونا ہے۔
مختصر کروں امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور منتظرین کا تقویٰ، علم اور ان کی معرفت ایسی ہوتی کہ تمام کائنات ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی ہے اور زمین و آسمان ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں۔ خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک کسی بھی شخص کا مقام اس کے علم اور اخلاص کی وجہ سے ہی بلند ہوتا ہے لیکن چونکہ امام مہدی ع کے اصحاب کو کوئی نہیں جانتا، اس لیے ہر کوئی اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرسکتا ہے کہ وہ امام مہدی ع کے اصحاب میں شامل ہو جائے۔

منابع و ماخذ
(1)۔امالی صدوق، ص352.
(2)۔آل عمران/31.
(3)۔مجموعه ورام، ج2، ص87.
(4)۔بحارالانوار، ج52، ص307.
(5)۔معانی الاخبار، ج 1، ص160.
(6)۔بحارالانوار، ج 52، ص 386.

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .