حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجتالاسلام محمدحسین صمدی، جو کہ ایک دینی مدرسے کے استاد ہیں، نے گزشتہ روز مدرسہ علمیہ الزہرا (س) بابل میں شہید خدمت، آیتالله رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک نشست میں طلاب و اساتذہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"ضروری ہے کہ ہم شہید رئیسی کی شخصیت، کارکردگی اور فکر و نظریے کا جائزہ لیں تاکہ یہ جان سکیں کہ عرفان اور روحانیت کا راستہ کیا ہے اور کس طرح اس راہ پر گامزن ہوا جا سکتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: "عرفان اور روحانیت دو چیزوں پر مشتمل ہے؛ پہلا، خلوت میں خدا سے راز و نیاز اور دوسرا، مخلوقِ خدا کی خدمت۔ یہ ایک ایسی لازم و ملزوم حقیقت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے بغیر عرفان حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف خدا سے راز و نیاز یا صرف خدمتِ خلق سے روحانیت ممکن نہیں، بلکہ ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ یہی انبیائے الٰہی اور اولیاء کرام کا طرزِ عمل تھا اور امام زمانہ (عجلالله تعالی فرجه الشریف) کے مخلص و خاص یاروں کی بھی یہی پہچان ہو گی۔"
انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت سے چند نمونے پیش کرتے ہوئے کہا: "امیرالمومنین علی (علیهالسلام) جب ایک کنواں کھود چکے ہوتے تھے اور ان کا لباس ابھی خشک بھی نہ ہوا ہوتا، تو قلم و کاغذ منگواتے اور اس کنویں کو مسلمانوں کی عام فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیتے۔ امام جعفر صادق (علیهالسلام) سے ایک حدیث منقول ہے کہ 'مخلوقِ خدا، خدا کا کنبہ ہے اور جو شخص ان کی خدمت کرے، خدا اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اور جب خدا کسی سے محبت کرے تو وہ شخص یقینا عاقبت بخیر ہو جاتا ہے۔' اور کیا اس سے بہتر انجام ہو سکتا ہے کہ انسان خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہوئے شہادت کا مقام حاصل کرے۔"
حجتالاسلام صمدی نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۴ کی روشنی میں سچے مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا: "مومن وہ ہے جس سے خدا محبت کرتا ہے اور وہ بھی خدا سے محبت کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ متواضع و خاکسار ہوتا ہے اور کفار کے مقابلے میں مضبوط و استوار ہوتا ہے، زمانے کی ملامتوں اور تنقیدوں سے خوف زدہ نہیں ہوتا اور مسلسل راہِ خدا میں جہاد کرتا رہتا ہے۔ یہ تمام صفات آیتالله رئیسی میں موجود تھیں۔"
انہوں نے آخر میں کہا: "شہید خدمت، امام حسین (علیهالسلام) کی راہ پر چلتے ہوئے، جنہوں نے دینِ خدا کی بقا اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اپنی جان نچھاور کر دی، اپنی تمام توانائی اور وقت خدا کی مخلوق کی خدمت اور دین کی سربلندی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ ہر مقام پر موجود ہوتے، مزدوروں اور محروم عوام کے مسائل سنتے اور ملک و ملت کے مسائل کے حل کے لیے حتی الوسع کوشش کرتے۔ اس راہ میں وہ کسی بھی کام سے دریغ نہیں کرتے اور آخرکار خداوندِ متعال نے انہیں خدمت کی راہ میں شہادت جیسی بلند منزل عطا فرمائی۔"









آپ کا تبصرہ