۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
امام زمانہ (عج)

حوزہ/ امام زمانہ عج کو ظہور کے لیے آنے اور اپنی حکومت بنانے کے لیے کسی شخص، طاقت یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر امام کو اپنی حکومت کے لیے کسی ماموم کی ضرورت ہے تو وہ امام نہیں رہے گا! امام وہ ہوتا ہے جو خدا کے علاوہ کسی اور چیز کا محتاج نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ خدا اور امام زمان عج کی مدد کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں مخلوق کی ضرورت ہے!

حوزہ نیوز ایجنسی |

از قلم: سیدہ نصرت نقوی

حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ فرماتے ہیں: "خدا ہمارے ساتھ ہے اور اس کے وجود سے ہمیں اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔" حق ہمارا ہے، اس لیے دوسروں کی مدد کرنے سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا، اور ہمیں ہمارے رب نے پیدا کیا ہے، اور مخلوق ہمارے لیے پیدا کی گئی ہے۔ الاحتجاج، ج2، ص466

امام زمانہ عج کو ظہور کے لیے آنے اور اپنی حکومت بنانے کے لیے کسی شخص، طاقت یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر امام کو اپنی حکومت کے لیے کسی ماموم کی ضرورت ہے تو وہ امام نہیں رہے گا! امام وہ ہوتا ہے جو خدا کے علاوہ کسی اور چیز کا محتاج نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ خدا اور امام زمان عج کی مدد کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں مخلوق کی ضرورت ہے!

لیکن کچھ وجوہات کی بناء پہ ہے: یہ ایمان کی آزمائش کے لیے ہے تاکہ خدا دیکھ سکے کہ کون دائیں طرف ہے۔ مومنین کی صلاحیتوں اور صلاحیتوں کا ادراک۔ثبوت کو مکمل کرنا؛ تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ خدا تو نے مجھے اپنے اور اپنے اختیار کے لیے کچھ کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا! امام کے قدموں میں شہادت کے بلند مقام پر پہنچنا اور آسمانی درجات کا حصول!

امام علیہ السلام کی خدمت کی بہت سی مثالیں ہیں جو آپ کی خدمت کی نیت سے کی جائیں۔

امام زمان علیہ السلام کی خدمت کی قدر

محبان مہدی علیہ السلام: اپنی استطاعت کے مطابق امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت کرنا اور اس راہ میں جدو جہد اور سنجیدہ ہونا ایک مومن کا فرض اور فرض ہے۔فرشتے اور انبیاء ان کی خدمت کو اپنا شرف سمجھتے ہیں اور حضرت خضر علی نبینا اور ان کے اہل و عیال علیہم السلام جیسے عظیم اور عظیم پیغمبر ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔

قال الصادق علیه السّلام: وَ لَو اَدرَکتُهُ لَخَدَمتُهُ ایّامَ حَیوتی.(۱)

امام الصادق علیہ السلام نے فرمایا: امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر میں نے اسے سمجھا [اور اس تک پہنچا] تو میں عمر بھر اس کی خدمت کروں گا۔

مومن کی خدمت کرنا اسلام کے سخت مستحبات میں سے ایک ہے اور اس کا اجر عظیم ہے، اور یہ سچے مومنین اور مذہبی پیشواؤں کی ممتاز اور نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے، اور ایک سچے مومن کی پہچان اس کی خدمت میں اس کی کوشش کی شدت سے کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، لہٰذا صاحب عصر ہمارے مالک ،رئیس کی خدمت کرنا بہترین عبادت اور اطاعت ہے۔جو کہ اہل ایمان کے سردار و آقا ہیں۔

حضرت حجۃ سلام اللہ علیہ کی خدمت مختلف کاموں سے کی جاسکتی ہے۔

اپنے دوستوں، پیروکاروں اور شیعوں کی خدمت سے حاصل ہوتی ہے، ان کی ضرورتوں کو حل کرنا اور
ان کو مسائل سے چھٹکارا دلانا و ان کے معاملات کو حل کرنا۔درحقیقت اس امام عج کی خدمت ہے۔ نیز حلقے اور مجالس قائم کرنا، امام سے متعلق کتابیں لکھنا یا شائع کرنا،مدارس بنانا وغیرہ ۱- بحارالانوار ج۵۱ ص۱۴۸ باب۶ ح22

اگر امام عج کی خدمت کا ارادہ ہو تو ان کی خدمت کرنا افضل ہے

امام علیہ السلام کی خدمت کی بہت سی مثالیں ہیں جو آپ کی خدمت کی نیت سے کی جائیں، سو میں اپنے محترم قارئین سے گذارش کروگی کہ یہ پیغام عام کیجیے کہ ظہور امام زمانہ عج صرف منتظر رہنے میں نہیں ہے بلکہ امام کی اس طرح کی خدمت میں ہے آپ ڈاکٹر ،پروفیسر، دکاندار، ڈرائیور اسکالر یا کسی بھی شعبے سے وابستہ ہیں تو آپ اپنی جاب کے علاوہ ذاتی خدمت انجام دیں بنیت امام زمان عج بلا کسی غرض و غایت کے۔ ہمارے ہاں بہت ڈے معصوم مومنین دعای امام زمانہ عج پڑھکر یا دعای ندبہ روز جمعہ پڑھکر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے منتظرین کی لسٹ میں نام لکھوالیا ہے، میرے بھائ میری بہن اگر آپ کہیں غلط ہوتے دیکھ کر روک نہیں سکتے اگر ظالم حکام وقت کے خلاف آواز نہیں اٹھاسکتے تو یقین کیجیے ان دعاووں ک کوئی حاصل نہیں! مجالس و پروگرامز کے اختتام پہ ہی نہیں اپنے ہر عمل میں رضامندی امام زمانہ عج کو شامل کرلیجیے ظہور نزدیک ہے۔ یہ دائمی زندگی نہیں جس میں ںمبے جا توقعات یا دنیا داری کے لیے آخرت تباہ کیجیے ورنہ یقین رکھیں روز آخرت یہ سب اعمال ردی ہوگے۔علماء ،اسکالرز،پروفیسرز اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پہ از حد واجب ہے کہ علم کو پہنچائیں اپنے علم کو دولت میں نہ تولیں،مقام و رتبہ سب یہیں رہ جانا ہے اگر باقی رہنا ہے تو صرف خدا نے۔ آج جس ایران کی مخالفت میں ہمارے یہاں کی بیشتر اکثریت شامل رہی وہ دیکھ لے کہ فتح حق کی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ والدین اولاد کے ڈاکٹر، انجینئر بننے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اپنے گھر کی سب سے قابل اولاد کو بہترین تعلیم سے مزین کرتے ہیں اور ناکارہ ترین انسانوں کا مقدر بلکہ یہ کہا جائے ناکارہ اور ان پڑھ اولاد جو کسی قابل نہیں ہوتی اسے مدرسوں میں ڈالا جاتا ہے۔دینی مدارس میں صرف وہی بچے جاتے ہیں جو کچھ نہ کرسکیں اور یہ ہمارا المیہ ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .