۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 367122
30 مارچ 2021 - 00:12
عباس افضل حجام

حوزہ/ اگر تمام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو فریضہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں تو معاشرہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہو جائے اور حکومت قائم آل محمد (ص) کے لیے زمینہ فراہم ہو جائے گا۔

تحریر: عباس افضل حجام، بسیجی کشمیر

حوزہ نیوز ایجنسی عصر حاضر کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ جو اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی کے دور غیبت میں ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کر آپ(ع) کے ظہور کے لیے زمین ہموار کریں۔ اس مقالہ میں ہم بغیر کسی تمہید اور مقدمہ کے ان ذمہ داریوں میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں ہمیں ایک منتظر ہونے کے عنوان سے انجام دینا ضروری ہے ورنہ ہم آپ (ع) کے سچے منتظر نہیں سو سکیں گے۔

1:انتظار فرج
عصر غیبت میں مومنین کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اپنے امام کا شدت سے انتظار کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «افضل اعمال امتى انتظار الفرج
میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «اقرب ما يكون العباد من الله جل ذكره و ارضى ما يكون عنهم اذا افتقدوا حجة الله جل و عز و لم يظهر لهم و لم يعلموا مكانه و هم فى ذلك يعلمون انه لم تبطل حجة الله جل ذكره و لا ميثاقه، فعندها فتوقعوا الفرج صباحا و مساء.
اس وقت بندے اللہ سے نزدیک ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا جب اللہ کی حجت ان کے درمیان سے غائب ہو اور وہ اس کی جگہ کو نہ پہنچانتے ہوں اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کی حجت ہمارے درمیان سے نہیں اٹھی ہے۔ لہذا وہ صبح و مساء اس کے ظہور کا انتظار کرتے رہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: «سياتى قوم من بعدكم، الرجل الواحد منهم له اجر خمسين منكم، قالوا: يا رسول الله! نحن كنامعك ببدر و احد و حنين و نزل فينا القرآن؟ فقال: انكم لو تحملوا لما حملوا لم تصبروا صبرهم.
تم لوگوں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس میں سے ہر ایک شخص تم میں پچاس افراد کا ثواب کمائے گا۔ کہا: یا رسول اللہ! ہم جنگ بدر و احد اور حنین میں آپ کے ساتھ تھے اور ہمارے درمیان قرآن نازل ہوا ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو کچھ وہ تحمل اور برداشت کریں گے اگر تم کرنا چاہو تو ان جیسا صبر نہیں کر پاو گے۔
دوسری مرتبہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: انتظار الفرج بالصبر عبادة صبر اور حوصلہ کے ساتھ ظہور کا انتظار کرنا عبادت ہے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: «ما احسن الصبر و انتظار فرج کتنا اچھا ہے صبر کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: «له غيبة يرتد فيها اقوام و يثبت فيها على الدين آخرون، فيؤذون و يقال لهم: «متى هذا الوعد ان كنتم صادقين » اما ان الصابر فى غيبته على الاذى و التكذيب بمنزلة المجاهد بالسيف بين يدى رسول الله.
ان(مھدی) کے لیے غیبت کا دور ہو گا کہ جس میں کچھ قومیں دین سے خارج ہو جائیں گی اور کچھ اپنے دین پر باقی رہیں گی۔ پس انہیں اذیت و ازار دی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ ظہور کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ لیکن جو لوگ اس اذیت و ازار اور دشمنوں کی طرف سے جھٹلائے جانے کے باوجود ان کی غیبت پر صبر سے کام لیں گے ان کا مقام اس مجاہد کی ہو گا جس نے رقاب رسول خدا (ص) میں تلوار چلائی ہو۔

2:اصلاح نفس

منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خود کی اصلاح کریں، اخلاق حسنہ اور صفات کمالیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «من سره ان يكون من اصحاب القائم، فلينتظر وليعمل بالورع و محاسن الاخلاق، و هو منتظر 
جو شخص چاہتا ہے کہ امام ہمارے قائم کے اصحاب میں سے ہو، اسے چاہیے کہ انتظار کرے، ورع اور پرہیز گاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپنائے پس ایسا شخص حقیقی منتظر ہو گا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: «ان لصاحب هذا الامر غيبة فليتق الله عبده وليتمسك بدينه
بتحقیق صاحب امر کے لیے ایک غیبت کا زمانہ ہو گا لہذا اللہ کے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنا ہو گا اور ان کے دین سے متمسک رہنا ہو گا۔

3:سماجی اصلاح
دوران غیبت میں مومنین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرے کی اصلاح بھی کریں۔اگر ہر انسان اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے گھر سے شروع کرے تو یقینا سماج خود بخود سدھر جائے گا، معاشرے سے برائیاں ختم ہو جائیں گی اور نتیجۃ پورا معاشرہ امام زمانہ(ع) کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔
امام باقر علیہ السلام نے دوران غیبت شیعوں کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «ليعن قويكم ضعيفكم و ليعطف غنيكم على فقيركم ولينصح الرجل اخاه النصيحة لنفسه.
تم میں سے صاحبان قدرت ضعیفوں کی مدد کریں، غنی اور مالدار فقیروں کی دستگیری کریں اور ہر انسان اپنے بھائی کو مفید نصیحت کرے۔
خداوند عالم کا اشاد ہے: «كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنكر)
تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کے لیے خلق کیا گیا ہے (چونکہ) تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «ان الامر بالمعروف و النهى عن المنكر سبيل الانبياء و منهاج الصلحاء، فريضة عظيمة بها تقام الفرائض و تامن المذاهب و تحل المكاسب و ترد المظالم و تعمر الارض و ينتصف من الاعداء و يستقيم الامر
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کا راستہ اور صلحا کا طریقہ ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جس سے فرائض اور واجبات قائم رہتے ہیں، راستے پر امن رہتے ہیں، معیشت حلال ہوتی ہے، مظالم اور فساد کم ہو جاتے ہیں، زمین آباد ہوتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور دیگر امور آسانی سے انجام پاتے ہیں۔
یقینا اگر تمام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو فریضہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں تو معاشرہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہو جائے اور حکومت قائم آل محمد (ص) کے لیے زمینہ فراہم ہو جائے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .