۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
امام زمانہ

حوزہ/ جس طرح حضرت ایوب علیہ السلام بلاؤں اور سختیوں میں بہت زیادہ مبتلا ہوئے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے۔ اور اتنی سختیاں دیکھی اور بالآخرہ خدا نے ان سب گرفتاریوں کو ان سے دور کردیا۔

تحریر: مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین

حوزہ نیوز ایجنسییہ بہت سخت گھڑی ہے کہ انسان کسی ایسے کا انتظار کرے جو موجود ہو اور نظروں سے اوجھل بھی ہو، پاسباں بھی ہو اور ظاہراً ہمارے پاس بھی نہ ہو ، سائباں بھی ہو اور اس کا سایہ بھی نہ ہو، ممتحن بھی ہو اور خود اس کا امتحان بھی ہو، یہ امتحان کی منزل نہیں ہے تو پھر کیاہے۔

کتنا اچھا ہے، امام سجاد علیہ السلام کی اس حدیث پر دقت کریں۔ امام اپنی اس حدیث میں اشارہ فرما رہے ہیں کہ ؛ امام مہدی علیہ السلام حضرت ایوب کے مانند ہیں ، اور وہ صفت، بلاؤں میں گرفتار ہونے کی ہے، اور اس کے بعد وہ دور ہوجائے گی۔ (فالفرج بعد البلوی)

اس جملہ پر توجہ کریں! آپ کے وقت کا امام ابھی سختیوں کی ا مواج اور بلاؤں میں گرفتارہے اور جس وقت خدا اجازت دے گا ظہور کاوقت پہنچ جائے گا۔ اور وہ گرفتاری دور ہو جائے گی۔ جس طرح حضرت ایوب علیہ السلام بلاؤں اور سختیوں میں بہت زیادہ مبتلا ہوئے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے۔ اور اتنی سختیاں دیکھی اور بالآخرہ خدا نے ان سب گرفتاریوں کو ان سے دور کردیا۔ (کمال الدین ج ۱ ص۳۲۱/کشف الغمۃ ج۲ ص۵۲۲ / اعلام الوری ص۴۲۷/ بحارالانوار، ج ۵۱ ص۲۱۷)روایات نے بیان کیاہے کہ امام زمانہ علیہ السلام غیبت کے مصیبت سے بھرے زمانہ میں ، گرفتاری اور امتحانات میں مبتلا ہوں گے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :

فِي الْقَائِمِ مِنَّا سُنَنٌ مِنْ سُنَنِ الْأَنْبِيَاءِ … وَ أَمَّا مِنْ أَيُّوبَ فَالْفَرَجُ بَعْدَ الْبَلْوَى‏ ( کمال الدین ج۱ ص۳۲۲)

امام زمانہ علیہ السلام کی سنت حضرت ایوب علیہ السلام سے فرج اور گشایش گرفتاری اور امتحان کے بعد ہے ۔

اس بنیاد پر حضرت غیبت کے زمانہ میں گرفتار اور امتحان میں ہے اسی لئے ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہم حضرت کےلئے دعا میں اس طرح پڑھیں :

أَنْتَ يَا رَبِّ الَّذِي تَكْشِفُ السُّوءَ وَ تُجِيبُ‏ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاكَ وَ تُنَجِّي مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ فَاكْشِفِ الضُّرَّ عَنْ وَلِيِّك ( مصباح المتھجدج۱ ص۴۱۶)

خدایا فقط تو وہ ذات ہے جو مصیبتوں کو برطرف کرتا ہے اور بےچاروں کا جواب دینے والا ہے جب وہ لوگ تجھ کو پکارتے ہیں ، اور تو ہی وہ ذات ہے جو [ مخلوقات ] کو پریشانی اور بڑی مصیبتوں سے نجات دیتی ہے ، لہذا خدایا اپنے ولی [ امام زمانہ ] کو مصیبت سے نجات دے !

ہم دعائے ندبہ میں وہ مصیبتیں جو امام زمانہ علیہ السلام کو گھیر لی ہے ، شکوہ کرتے ہیں :

عَزِيزٌ عَلَيَّ أَنْ تُحِيطَ بِكَ‏ دُونِيَ‏ الْبَلْوَى‏ وَ لَا يَنَالَكَ مِنِّي ضَجِيجٌ وَ لَا شَكْوَى‏ ( مزار کبیر ص۵۸۱)

اے میرے مولا ! یہ مجھ پر بہت سخت ہے [ اور میں اس سے غمگین ہوں ] کہ مصیبتیں آپ کو گھیرے ہوئے ہیں اور مجھے نہیں ! اور میری فریاد، نالہ ، اور شکایت کی آواز آپ تک نہیں پہنچتی ہے !

یہ سب واضح طور سے اس بات پر دلالت کرتے ہیں حضرت اب بھی غیبت کے مصیبت بھرے زمانے میں امتحانات اور مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ہماری سب سے پہلی ذمہ داری حضرت کی مصیبت کو سمجھنا ہے اور پھر حضرت کو ان مصیبتوں سے نجات دینا ہے ۔

اس سلسلے میں ، ائمہ علیہم السلام نے شیعہ کی ذمہ داری کو ہمیں سکھایا ہے:

الف : حضرت کی دین میں نصرت اور مدد کرنا ؛ کہ جو قلب اور عقیدے ، زبان اور اعضاءو جوارح کے لحاظ سے نصرت کو شامل ہوتی ہے ۔ مانند امام صادق علیہ السلام کا ارشاد اپنے با وفا صحابی ہشام بن حکم کے سلسلے میں : ناصرنا بقلبہ ولسانہ و یدہ ۔( کافی، ج۱، ص۱۷۲)

ب) حضرت کو مصیبتوں اور امتحانات سے نجات دینے کےلئے دعا اور گریہ و زاری کرنا ۔ مانند یہ فقرہ :

فاکشف الضر عن ولّیک

ج) اہل بیت علیہم السلام اور حضرت کے فرج کے لئے دعا اور گریہ و زاری کرنا

مانند یہ فقرہ: اللھم عجّل فرجہ وایّد ہ بالّنصر۔

د) حضرت سے گفتگو اور محبت آمیز مناجات اور ان امتحانات کی بانسبت ہمدردی ۔ مانند یہ فقرہ : عزیز علیّ ان تحیط بک دونی البلوی ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .