۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
حروف شوق

حوزہ/امام زمان  کا تعلق تمام بشریت سے ہے کسی مخصوص فرقے گروہ یا صنف سے نہیں ہے کسی مخصوص مذہب سے نہیں ہے ان کا فیضِ عام فقیر و غنی عالم و جابل نیکوکار و گناہ گار حتی کے غیر مسلم کو بھی پہنچتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؍

تحریر: سید لیاقت علی کاظمی

میرے مولا: میری آرزو ہے کہ لوگ مجھے غلامِ مہدی کے نام سے یاد کریں، میری خواہش تھی کہ میری پیدائش کے وقت میرے کانوں میں آپ کے عشق کی اذان کہی جاتی ، اے کاش کہ مجھے آپ کے نام پر نذر کر دیا جاتا، آپ کی غلامی کا دُر میرے کانوں میں پہنایا جاتا کاش میرے دَہن کو آپ کے نام سے آشنا کیا جاتا اور آپ کے نام کی تعویذ میری گردن کی زینت بنتی۔

میرے پیارے آقا: کتنا اچھا ہوتا کہ آپ کے نام نامی سے میری زبان نے بولنے کا آغاز کیا ہوتا اے کاش کہ جب میں بولنے کی کوشش کر رہا تھامیرے رشتہ دار مجھ سے یا مہدی(عجل) کہلواتے۔

اے کاش میرے بچنے کا جھولا آپ سے آشنائی کا جھولا ہو تا،کاش کہ میری ابتدائی کلاس میں میرے اسکول کے استاد آپ سے عشق کے الف و با کی ہِجّے کراتے اور آپ کے خوبصورت نام کے ذریعے میرے لکھنے کی مشق کراتے۔

راہنمائی کے ان ایام میں کسی نے میری رہنمائی آپ کے خیمے کی طرف نہ کرائی۔ جب میں بڑا ہو گیا تب بھی میرے کالج میں کسی نے مجھے آپ سے نہ ملایا کہ آپ ہی عالم امکان کے مدیر ہیں۔

میری جغرافیہ کی کتاب میں نہ ہی ذی طویٰ اور رضویٰ[1] کے بارے میں بتایا گیا اور نہ ہی تاریخ کی کلاس میں آپ کی تاریخ ِغیبت و غربت اور آپ کی تنہائی سے آشنا کرایا گیا۔ دینیات کی کلاس میں بھی مجھ سے نہیں بتایا گیا کہ باب اللہ اور دیّان دین[2] حقیقت میں آپ ہی ہیں ۔ ہائے افسوس کہ ادبیات کی کلاس میں آپ کے مقدس وجود کے سامنے ادب شِعاری کے آداب نہ سکھائے گئے۔

افسوس کہ نقاشی کی کلاس میں مجھے آپ کے مہر بان چہرے کے خد وخال سے روبرونہ کرایا گیا۔

کیوں نہ مجھے دیئے جانے والے انشاء پردازی کا عنوان "علم بہتر ہے یا ثروت" کے بجائے آپ أ اور آپ کا ظہور اور آپ أ کے راضی کرنے کا طریقے دیا گیا کہ بغیر آپ کے نہ ہی علم اچھا ہے نہ ہی ثروت بہتر ۔

اے کاش کہ زبان دانی کے درس میں مجھے آپ سے گفتگو کی جانے والی زبان کے بارے میں بھی پڑھایا جاتا جو کہ فطرت بشر کی مونس اور اس سے آشا اور نزدیک ہے۔ جس وقت میں خارجی زبانوں کے سیکھنے میں محنت کر رہا تھا کاش مجھ سے کوئی کہتا کہ وہ ہر زبان و بیان اور تمام لہجے کو جانتے ہیں یہاں تک کہ پرندوں کی زبان سے بھی واقف ہیں۔

سائنس کی کلاس میں جب مجھ کو الکٹرون کی گردش کے بارے میں بتایا جارہا تھا تو یہ واضح اشارہ تھا کہ میں سمجھ جاتا کہ تمام کائنات ماسوا اللہ آپ ہی کے وجود مبارک کے گردا گرد گھوم رہی ہے۔

اے کاش ریاضی و فیز کس اور کیمیا کے انواع و اقسام کے پیچید و فارمولوں کے ساتھ ہی ساتھ آپ سے مرتبط ہونے کا نسخہ بھی بتایا جاتا۔

میرے ذہن سے بچپن میں پڑھی ہوئی حکیم کی وہ حکایت نہیں جاتی جس میں حکیم کا گزر ایک قبرستان سے ہو تا ہے اور وہ تعجب سے قبروں پر موجود تعویذ کو دیکھتا ہے جس میں مرنے والوں کی عمر ۴،۳، یا ۸سال ہوتی ہے تو وہ حیرت سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ لوگ بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے تو بتایا گیا کہ یہاں پر ہر ایک کی عمر کو اسکی علمی کَدّ و کاوش سے جدا کر کے شمار کیا جاتا ہے یعنی جتنی عمر حصول علم میں گزرتی ہے بس اسی کو عمر تصور کیا جاتا ہے ۔ کاش کہ ایک روز میرے استاد معرفت امام سے گریز کرنے پر بھی حدیث بتاتے کہ شیعی نکتۂ فکر کےمطابق حیاتِ حقیقی امام عصر أ کی طرف متوجہ رہنا اور ان کی معرفت و محبت و مودت اختیار کرنا اور خاص طور پر ان کے دشمنوں سے دوری و بیزاری اختیار کرنے سے تعبیر ہے۔

فیزکس کی کلاس میں نور کی تابانیاں تو بتائی گئیں مگر میں نہ سمجھ سکا کہ نور خدا تو آپ ہی ہیں اور﴿يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ﴾[3]کا مقصود آپ ہی کی ذات گرامی ہے۔ نور کی تیز رفتاری کا تذکرہ (۳۰۰ ؍ہزار کلو میٹر ایک ثانیہ میں) تو مجھ سے کیا گیا مگر اشارہ تک نہیں کیا گیا کہ امام کی نگاہِ شعاع رفتاری کہاں تک ہے ، مجھے نہیں بتایا گیا کہ امام ایک لمحے میں عوالم و کہکشاں کو دیکھ کر سب کے حالات سے باخبر ہونے پر قادر ہیں۔

جب میں نے درس کا آغاز کیا تو کسی نے نہیں کہا کہ اپنا نام امام زمان أ کی دانشگاه ِمعرفت و محبت میں بھی لکھواؤں کسی نے مجھے پر واضح نہیں کیا کہ معرفتِ امام﷣ کے بھی منازل و مراتب ہیں۔

مجھے خبر نہ تھی کہ ٹیچر ، انجینئر یا پروفیسر جیسے عہدے خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں جو کہ صرف کسب ثروت و قدرت اور شہرت ومنزلت کے کام آتے ہیں، مجھے خبر ہی نہ تھی کہ اس سے بڑے عہدے بھی ہیں۔

رفتہ رفتہ کالج کی نیم اندھیری فضا سے نکل کر یونیورسٹی کی فضا میں قدم رکھا تو وہاں کی فضا اور زیادہ مُکدّر تھی جہاں پر بازار غرور و نخوت کا ہر ایک خریدار تھا اور اسباب غفلت ہمۂ وقت فراہم و آماده تھے۔ فضا، علم زدگی کے مغربی رنگ و روپ میں لپٹی روشن خیالی اور فکرمآبی کے آسیب میں گرفتار نظر آئی جہاں علم اس چیز کا نام تھا کہ یہ بات فلاں یوروپی کتاب یا مجلے میں جو کہ امریکہ سے ترجمہ شدہ ہے پائی جاتی ہے ۔جب کہ علوم اہل بیت ﷨کے بارے میں جو کہ حقیقی و آسمانی علم ہے بہت کم باتیں ہوتی تھیں۔

اے میرے آقا: یونیورسٹی میں بھی کسی نے مجھے آپ کے بارے میں نہیں بتایا آپ کے نام کا پر چم کوئی نہیں لہراتا تھا کوئی آپ کی طرف بلانے والا نہ تھا کوئی بھی استاد آپ کے اوصاف بیان نہیں کرتا تھا بس تھوڑا بہت معارف اسلامی اور تاریخ اسلام کے دروس طلّاب کے لیے راہِ معرفت وَاکرتے تھے مگر وہ بھی مذہبی تبلیغات کے نام پر نہیں بس چھوٹی سی ثقافتی نشست و بر خواست اور نماز جماعت یا زیارتی سیاحت اور قرآن و نہج البلاغہ کے أمسابقات کی حد تک ہی اس سے زیادہ نہیں جب کہ آپ کی ذات اس مختصر وقت میں بھی حصہ نہیں رکھتی تھی اور کہیں آپ کا تذکرہ نہیں ہوتا تھا اور ان ایام میں بھی آپ گم گشتہ ہی رہے۔ تحصیل علم کے بعد بھی زندگی کے جھمیلے اور فکر معاش کے دھوکے نے مجھے آپ کے بارے میں سوچنے سے دور رکھا۔

ان سب کے باوجود میں نے اپنے ضمیر کی گہرائیوں میں آپ کو پا ہی لیا۔ کیا خوب کہ آپ کو اپنے دل کی آنکھوں سے تلاش کرلیا ،اپنے قلب کے ذریعہ پہچان لیا، اپنے تمام وجود میں آپ کے وجود مبارک کو محسوس کر تا ہوں گویا کہ میں دوبارہ پیدا ہو گیا ہوں، آپ کے بغیر زندگی جینے کے قابل نہیں ہے اور اگر کوئی میری طرح ایک طویل غفلت کے بعد آپ تک پہنچتا ہو تو وہ حق رکھتا ہے کہ اپنے اندر دو بارہ پیدا ہونے کا احساس کرے ان مشکلات کے بعد وہ آپ پر حق رکھتا ہے کہ آپ اسکو آخر الزمان کے فتنوں اور مصیبتوں سے نجات مرحمت فرمائیں اور حق رکھتا ہے کہ اس نعمت کے شکرانے میں ادب سے اپنی پیشانی خاک پر رکھ دے اور اپنے آپ سے کہہ اٹھے۔

«الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللّهُ»۔

اگر ساری کائنات کی بھی خاک چھانو گے تو امام عصر أ جیسا دوست نہ پاؤ گے کیونکہ:

· تم لاکھ انھیں یاد نہ رکھو مگر وہ تمہاری یاد سے غافل نہیں رہتے۔

· تم ان کو چھوڑ دومگروہ تمہیں اکیلا نہیں چھوڑتے۔

· تم لاکھ ان پر جفا کرو مگر وہ عطا سے دریغ نہیں کرتے۔

· تم ان کے لیے دعا نہ کرو مگر وہ خدا کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعا کرتے ہیں۔

· اگرچہ تم ان سے گریزاں رہو مگر وہ تمہاری طرف متوجہ رہتے ہیں۔

· تم ان کی رنجش کے اسباب فراہم کرتے رہو مگر وہ تمہاری رنجش کو ٹال جاتے ہیں اور دستِ محبت دراز کیے رکھتے ہیں۔

· تم گر چہ ان کی سربلندی کا سبب نہ بنو مگر وہ تمہارے لئے باعث افتخار بنتے ہیں۔

· تم ان کے حالات سے بے خبر رہے ہو مگر وہ تمہارے حالات سے بے خبر نہیں رہتے۔

· اگر چہ تم ان کے وجود و حضور کو پہنچاتے نہیں مگر وہ ہمیشہ ہر جگہ پر تمہاری نصرت کے لئے موجود رہتے ہیں۔

· تم رابطے اور ملاقات سے پرہیز کرتے ہو وہ ملاقات کا پیغام دیتے ہیں۔

· اگر چہ تم ان کا دفاع نہ کرو مگر وہ تمہیں بے پناہ نہیں چھوڑتے۔

· گو کہ تم نے ہزارہ مرتبہ ان کا دل توڑا ہو گا مگر پھر بھی وہ ہمہ وقت تمہاری معذرت کو قبول کرنے پر تیار ملیں گے۔

· گوتم بار بار ان سے کئے ہوئے عہد کو توڑتے ہو مگر وہ اپنی طرف آنے والے راستے کو بند نہیں کرتے۔

· تم ان سے محبت نہیں رکھتے مگر وہ تمہیں پیار کرتے ہیں۔

· تم ان کے اچھے امین نہ ہو مگر وہ تمہارے لئے بہترین امین اور راز دار ہیں۔

· تم ان کے مددگار نہ سہی مگر وہ ہمیشہ تمہارے پشت پناہ اور حمایت گزار رہیں گے۔

· اگر تم نے کوئی چھوٹی سی خدمت ان کے لئے انجام دی تو وہ اپنا پورا لطف و کرم تم تک پہنچانے سے پرہیز نہیں کریں گے۔

· اگر تم نے ان کی حرمت کا پاس نہ بھی رکھا پھر بھی وہ تمہاری حمایت و محافظت فرماتے ہیں۔

· اگر تم نے ان کے حق اور حصے کو اپنے مال سے نہیں نکالا تو تمہاری روزی کو قرض کی شکل میں اپنے پاس سے شمار کرتے ہیں۔

· اگر تم ناکارہ اور خطاکار بچے ہو تو وہ مہربان و شفیق باپ کی طرح ہیں۔

· اگر تم نے ان کے ساتھ حق برادری ادا نہیں کیا تو وہ پھر بھی تم سے بھائی چارگی کا رویہ اپناتے ہیں۔

· اگر تم نے ان کو مصیبوں میں تنہا چھوڑ دیا تب بھی وہ تمہیں تمہاری مشکلات اور پریشان حالی میں مددگار نظر آئیں گے۔

· کسی بھی حالت میں وہ تمہارے محتاج نہیں ہیں جبکہ تم کے سامنے سراپا نیاز اور محتاج ہو۔

ہاں اے دوستو!

امام عصر کی عنایت کو حاصل کرنے کا راز ان کے وجود مقدس کی طرف متوجہ رہنے میں ہے معصومین﷨ یا خود آپ ہی سے توسل کر کے آپ کو اپنے دل کی دنیا میں بلا کر صبح و شام آپ کی زیارت کی جاسکتی ہے۔

خبردار اشتباہ نہ کیجئے گا: امام ہماری پہنچ سے دور نہیں ہیں ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہیں ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے نزدیک ہیں امام زمان أ کا تعلق تمام بشریت سے ہے کسی مخصوص فرقے گروہ یا صنف سے نہیں ہے کسی مخصوص مذہب سے نہیں ہے انکا فیض عام فقیر و غنی عالم و جابل نیکوکار و گناہ گار حتی کے غیر مسلم کو بھی پہنچتا ہے۔ وہ منشی و دربان نہیں رکھتے جس وقت اردہ کر لیجیئے گا آپ کا دل ہر جگہ ان کو پائے گا اور ہر کوئی آپ کو تلاش کر لے گا۔ ہر روز بغیر کسی وقت کی پابندی کے بغیر تیاری کے بغیر وسیلے کے امام عصر سے ارتباط پیدا کیا جاسکتا ہے اسکے لئے بس کافی ہے کہ ایک مرتبہ یاصاحب الزمان کہہ لیا جائے۔

گرچہ خود ہم نے اپنے کان کے پاس دیوار کھڑی کر لی ہے اور خود کو ان کی دل نشین آواز سننے سے محروم کر لیا ہے ۔ہمارے آقا و مولا تو ہماری آواز کا جواب دے رہے ہیں مگر ہم سن نہیں پاتے ہم نے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال لیا ہے اور ان کے جمال ِ دلربا سے اپنے آپ کو محروم کر لیا ہے، وہ ہر دم تم کو دیکھ رہے ہیں ہر گز یہ نہ کہو کہ میں کہاں اور مام زمانأ کہاں؟ کیا بعض اشتباہات کی بنا پر ہم اپنے ماں یا باپ سے ہمیشہ دور رہیں گے ؟ نہیں!! تو پھر وہ تو باپ سے زیادہ مہربان اور ماں سے زیادہ دل سوز ہیں اور اپنے فرزند دل بند کی طرح ہم سے پیار کرتے ہیں۔

اللہم عجل لولیک الفرج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1] ذی طویٰ مکّے سے نزدیک ایک پہاڑ کا نام ہے اور رضویٰ مدینے کے مغربی کنارے پر ایک پہاڑ ہے، ہم دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں: کاش میں جانتا ۔۔۔کہ آپ کی اقامت گاہ کس مقام پرہے "رضویٰ" میں ہے یا پھر کہیں اور؟ یا پھر ذی طویٰ میں ہے؟

[2] زیارت آل یاسین میں آیا ہے: "اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا بابَ اللَّهِ وَدَیّانَ دینِهِ"۔

[3] نور :(24)/35۔اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے۔امیرالمؤمنین حضرت علی﷣سے حدیث مروی ہے کہ اس سے مراد امام عصر أ ہیں۔(تفسیر برہان: ج4 ص72، ح7643)۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .