تحریر : مولانا سید عمار حیدر زیدی قم المقدس
حوزہ نیوز ایجنسی । موجودہ اسلامی معاشروں کی کیفیت میں اس انتظار کے اثرات کی طرف نگاہ کریں اور دیکھیں کہ کیا اس قسم کے ظہور پر ایمان انسان کو خواب و خیال کی دنیا میں لے جاتا ہے کہ جس سے وہ اپنی موجودہ حیثیت سے غافل ہوجاتا ہے اور ہر قسم کے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے یا یہ کہ واقعا یہ عقیدہ ایک قسم کے قیام اور فرد اور معاشرے کی تربیت کی دعوت ہے؟
کیا یہ عقیدہ تحرک کا باعث ہے یا جمود کا؟ اور کیا یہ عقیدہ مسئولیت ذمہ داری کا احساس ابھارتا ہے یا ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے فرار کا باعث بنتا ہے؟ خلاصہ یہ کہ کیا یہ فکری صلاحیتوں کو شل کردینے والی چیز ہے یا بیدار کرنے والی؟
ان سوالات کی وضاحت و تحقیق سے پہلے ایک نکتے کہ طرف پوری توجہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ بہت زیادہ اصلاح کنندہ قانون اور اعلیٰ ترین مفاہیم جب جاہل، نالائق اور غلط فائدہ اٹھانے والے افراد کے ہاتھ چڑھ جائیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں اس طرح مسخ کردیں کہ وہ اصلی مقصد کے بالکل خلاف نتیجہ پیدا کریں اور وہ ان کے ہدف سے الٹ راہ پر چل نکلیں، ایسے امور کی بہت سی مثالیں اور نمونے موجود ہیں اور مسئلہ انتظار کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک آج ہورہا ہے۔
کسی نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو ہادیان برحق کی ولایت رکھتا ہے اور حکومت حق کے ظہور کے انتظار میں رہتا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: "بمنزلة المجاھد بین یدی رسول اللہ" یعنی وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول اللہ کی موجود گی میں جہاد کرے۔ اس روایت کا تعلق امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مسئلہ انتظار سے ہے اور دوسری طرف اس انتظار کا تعلق دشمن کے ساتھ جہاد اور مقابلے کی آخری صورت سے ہے۔
بہت سی روایات میں ایسی حکومت کے انتظار کو بلند ترین عبادات میں سے شمار کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللّٰہ عزوجل" یعنی ظہور کا انتظار کرنا میری امت کے افضل ترین اعمال میں سے ہے۔
یہ انتظار امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، ایک عظیم عالمی مصلح کے قیام کا انتظار ہے اور درحقیقت صورت حال کو یکسر پلٹ دینے والا انقلاب اور ایک تحول کا انتظار ہے کہ جو پوری انسانی تاریخ میں سب سے بڑا اور سب سے بنیادی انسانی انقلاب ہوگا۔ وہ انقلاب کہ جو گذشتہ انقلابوں کے برعکس علاقائی نہیں ہوگا بلکہ ہمہ گیر اور سب کے لئے ہوگا اور انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر محیط ہوگا۔ وہ انقلاب سیاسی ، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ہر حوالے سے انقلاب ہوگا۔
اس انقلاب کے تین فلسفے ہیں: 1۔ انسان سازی 2۔ اجتماعی کوششیں 3۔ خراب حالات کا مقابلہ
خلاصہ یہ کہ دنیا جس قدر فاسد اور خراب ہوگی مصلح کے ظہور کے انتظار میں امید بڑھے گی جومعتقدین پر زیادہ روحانی اثر ڈالے گی، یہ امید برائی اور خرابی کی طاقتور موجوں کے مقابلے میں ان کی حفاظت کرے گی اور وہ نہ صرف ماحول کے دامن فساد کی وسعت سے مایوس نہیں ہوں گے بلکہ ان کا ڈٹ کے مقابلہ کریں گے۔