تحریر: سید لیاقت علی کاظمی
میں چاہتا ہوں کہ آپ کی غربت کا تذکرہ کروں اس غربت کا تذکرہ جو بارہ سو سال سے جاری وساری ہے وہ غربت کہ جس پر آسمان وزمین اشک فشاں ہیں وہ غربت کہ جسے آپ کے چاہنے والے بھی سمجھ نہیں پاتے وہ غربت کہ جس پر آپ کے آباء واجداد نے آپ کے پیدا ہونے سے پہلے گر یہ فرمایا۔
میں متحیّر ہوں کہ اس مثنوی کے کس باب سے گفتگو کا آغاز کروں ۔ اس اشک بیز کتاب کی کون سی جلد اٹھاؤں کس سطر اور کس صفحہ اور کس باب کو پڑھوں مجھے غم و غربت بھری اس تصویر نےناتواں بنادیا ہے۔
کہاں سے ابتدا کروں ؟ یہ کہانی خود سے بیان کروں یا دوسروں سے ؟ گذشتہ نسل سے کہوں یا موجودہ نسل سے شکوہ کروں یا دشمنوں سے ؟ عوام سے گلا کروں یا خواص سے ؟ کیا ان سے کہوں جو آپ کو رنجیدہ خاطر کرتے ہیں ؟[1] کیا ان سے کہوں جو آپ کے دست ِشفقت و رحمت کو دستِ خوں ریز سے تعبیر کرتے ہیں ؟ کیا ان سے شکوہ کروں جو آپ کی برق تپاں شمشیر کا تعارف اس انداز سے کراتے ہیں جس سے آپ کے دوست بھی آپ کے ظہور سے گھبرانے لگتے ہیں ؟ یا ان سے کہوں کہ جو آپ کو لوگوں کی دست رس سے دور بتاتے ہیں ؟ یا ان سے کہوں جو آپ کے جلوے تک پہنچنے کو امر محال سمجھتے ہیں ؟ یا ان سے کہوں جو آپکے نام پر لوگوں کو اپنی خواہشات کی طرف دعوت دیتے ہیں ؟ یا ان سے جو آپ کے آنے کی امید دلاتے ہیں ، مگر آپ کے زمانۂ ظہور کو دور گمان کرتے ہیں کیا ان سے کہوں جو آپ کو اس طرح بتاتے ہیں جیسا وہ خود پسند کرتے ہیں نہ اس طرح کہ جیسی آپ کی ذاتِ بابرکت ہے ؟ کیا ان سے شکوہ کروں کہ جو آپکی غیبت کو آپ کے نہ ہونے سے تعبیر کرتے ہیں؟
میرے مولا !گویا ہر چیز نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے کہ آپ کی ذات کو غربت ہی میں رکھیں گے، ابلیس کے لشکری دن رات اسی فکر پر کار بند رہتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ حقیقت میں وہ کون لوگ ہیں جو آپ کو اور آپ کے ظہور کو دل سے چاہتے ہیں ؟ اس کے بارے میں تو خدا جانتا ہے یا آپ! ہاں اتنا میں جانتا ہوں کہ آپ کی غیبت شروع ہونے سے آج بارہ سو سال گزرنے تک اس میدان میں ابلیس کے کارندے کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں جس میں انس و جن کے لشکری اس کے معاون ہیں جو کہ غیبت و ظہور سے پر دہ ہٹنے نہیں دیتے اور اس غیبت کی اندھیری رات کو مزید اندھیری کرتے جار ہے ہیں۔
میں اپنے آپ سے آغاز کر تا ہوں کہ جو کوئی اپنے آپ سے شروع کر تا ہے اس کے لیے امر فَرَج کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تک واپس آؤں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ میری اس غفلت بھری واپسی پر آپ کی چشم کرم ضرور ہو گی۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میری تو بہ قبول فرمائیں گے اور کھلے دل سے مجھے قبول کر لیں گے میں جانتا ہوں کہ ان غفلت بھرے لمحوں دنوں اور سالوں میں بھی آپ میرے لیے دعا کرتے تھے میں آپ سے گریزاں رہا تھا مگر آپ مجھ پر ایک والدِ مہربان و شفیق کی طرح نظر رکھتے تھے ۔ العفو... العفو !
اس شکایت کو کہاں لے جاؤں کہ آپ سے بے خبر افراد ہی نہیں بلکہ مومنین کرام و مقدس افراد بھی آپ کی غربت کی داستان سن پانے کی تاب نہیں رکھتے۔ کتنی عجیب غربت ہے ؟ ہاں ممکن ہے کوئی کہے امام عصر ارواحنافداہ کے بارے میں غربت کا مفہوم استعمال کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کوئی یہ بھی کہے کہ کیا امام زمانہ ارواحنافداہ بھی غریب ہیں ؟ اور شاید دوسرے افراد اس طرح کی تعبیر کو اعتقادی کمزوری کا نام دے ڈالیں یا پھر لکھنے والے کے ذوق احساس و محسوسات کا شاہکار قرار دے ڈالیں اور کچھ لوگ اس کو عرف عام سے ہٹ کر کوئی چھوٹا سا اور ہلکا ساموضوع سمجھ لیں کیونکہ ہم اکثر و بیشتر تمام آئمہ علیہم اسلام کی غربت کے بارے میں زیادہ سنتے اور سناتے ہیں مگر امام زمانہ کی غربت کے بارے میں کم گفتگو کرتے ہیں۔ ہم مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کو کائنات کا مظلوم اول جانتے ہیں۔
ہر سال ایام فاطمیہ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر گزرے مصائب و ظلم و ستم کو یاد کر کے اشک فشانی اور سینہ زنی کرتے ہیں-اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہئے- ہر مصیبت میں ہم سید الشہد (ع)اور آپ کے اہل بیت مکرم(ع) پر گریہ کناں رہتے ہیں۔
قبرستان بقیع کا نام سنتے ہی ہم سب کا دل غم واندوہ سے لبریز ہو جاتا ہے بغداد کے قید خانے میں امام موسی بن جعفر علیہ اسلام کی غربت کو یاد کرتے ہوئے ہم اشک فشاں ہو جاتے ہیں ۔
امام رضاعلیہ السلام کو غریب الغرباء کے نام سے پکارتے ہیں ، دسویں اور گیار ہو میں امام کو عسکری کے لقب سے یاد کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں پیشوا تمام عمر عباسی خلفاء کی قید میں رہے اس سے بڑی مظلومیت قابل تصور ہو سکتی ہے ؟
مگر ان سب کے باوجود ہم نے غربت امام زمانہ ارواحنافداہ کے بارے میں بہت کم سو چاہے یا اصلاً ان کے بارے میں فکر ہی نہیں کیا امام عصر علیہ السلام کی غربت سے نا آگاہی و ناواقفیت اور آپ کی غربت کے سلسلے میں غفلت بر تناہی امام زمانہ کی "غریبی" ہے۔
رہبر ان معصوم (ع)کی ادعیہ وزیارات و روایات میں بار ہو میں امام کی مظلومیت و غربت کے بارے میں ایسی عجیب تعبیرات وارد ہوئی ہیں جس سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور درد کی ایسی ٹیس اٹھتی ہے جو ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ اس دَور میں غریب الغرباء حقیقت میں وجود مقدسِ قطب عالم امکان حضرت ولی الله الاعظم ارواحنافد او کی ذات ہے ۔
[1] احتجاج ج ۲ص۲۸۹- (توقیع محمد بن على بن هلال کرخی)