۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
یمن

حوزہ/ یمن سے متعلق وہ سب کچھ جو ہمیں جاننا چاہئے، یمن احادیث و روایات کی روشنی میں یمن تاریخ کے تناظر میں،ظہور امام زمان عج اور یمن کی اہمیت، انصار اللہ یمن کون ہیں؟، یمن کی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت، یمن جنگ سے متعلق تازہ ترین اپڈیٹ اعداد و شمار کے ساتھ۔

حوزہ نیوز ایجنسی l بعض تاریخی کتابوں کے مطابق کربلا کے 72 شہداء میں سے 34 شهید یمنی تھے۔ اس کے علاوہ جناب مالک اشتر، کمیل، مقداد، اویس، حُجر بن عدی، هانی بن عروہ بھی یمنی تھے۔

یمن اور یمنی روایات کی روشنی میں:

1۔ یمنی پہلی قوم تھی کہ جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حج ادا کرنے کی دعوت کو قبول کیا۔

جناب ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرنے ہوئے فرمایا؛

"أَیُّهَا النَّاسُ إِنِّی إِبْرَاهِیمُ خَلِیلُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَحُجُّوا هَذَا الْبَیْتَ ... وَ کَانَ أَوَّلُ مَنْ أَجَابَهُ مِنْ أَهْلِ الْیَمَن" اے لوگوں میں ابراہیم خلیل اللہ ہوں اور بیشک اللہ تعالی نے تم سب کو اس گھر(کعبہ) کا حج ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔ جس قوم نے سب سے پہلے دعوت کو قبول کیا وہ یمنی تھے۔ (الکافی ؛ ج 4 ؛ ص205)

2۔ یمنیوں نے امیرالمؤمنین علیه السلام کے ہاتھوں اسلام کو قبول کیا۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله نے خالد بن ولید کو کچھ مسلمانوں کے ساتھ یمن کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اسلامی کی دعوت دی جاسکے۔ لیکن چھ مہینے گزرنے کے باوجود ایک شخص نے بھی اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ بات پیغمبر صلی الله علیه و آله کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے امیرالمؤمنین علی علیه السلام کو یمن کیلئے روانہ کیا اور ان سے کہا کہ یمن پہنچ کر خالد اور اس کے ساتھ افراد کو واپس بھیج دیں لیکن اگر کوئی خود سے رکنا چاہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ جب یمنیوں کو پتہ چلا کہ امیر المومنین علی علیه السلام یمن آئے ہیں تو آپ کے گرد جمع ہونے لگے۔ آپ علیہ السلام نے یمن کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور اُسی دن قبیله همدان کے پورے قبیلے نے اسلام کی دعوت قبول کی۔ (شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 62 / بحار الانوار، ج 21، ص 363)

3۔ امیر المؤمنین علیه السلام نے رسول خدا صلی الله علیه و آله سے روایت کی ہے کہ فرمایا؛ "مَنْ أَحَبَّ أَهْلَ الْیَمَنِ فَقَدْ أَحَبَّنِی وَ مَنْ أَبْغَضَهُمْ فَقَدْ أَبْغَضَنِی یعنی جس نے یمنیوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اُن سے دشمنی کی، اُس نے مجھ سے دشمنی کی۔ (کمال الدین و تمام النعمة، ج 2، ص 541/ کنز الفوائد، ج 2، ص154/ بحار الانوار ج 34، ص 333)

4. ایک دن رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله عیینة بن حصین بن حذیفه کو دیکھتے ہوئے فرمایا؛ میں تم سے زیادہ گھوڑوں کے بارے میں معلومات رکھتا ہوں۔ عیینة نے کہا؛ میں آپ سے زیادہ لوگوں کو پہنچانتا ہوں!! رسول خدا (ص) نے پوچھا؛ کس طرح؟ کہا؛ بہترین لوگ وہ ہیں کہ جو تلوار کو کندھوں پر رکھیں اور نیزوں کو اپنے گھوڑوں پر تیار رکھیں اور یہ نجد کے لوگ ہیں۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا؛ "کذبت ان خیر الرجال اهل الیمن و الایمان یمان و انا یمانى۔ یعنی، تو نے جھوٹ بولا! بہترین لوگ یمنی ہیں یمنیوں کا ایمان (بہترین ایمان ہے) اور میں یمنی ہوں۔ (الأصول الستة عشر ، ص 81/ بحار الأنوار، ج 57، ص233)

ظہور کے زمانے میں یمنیوں کو کردار؛

1. یمنیوں کا خروج کرنا، ظہور کی یقینی علامات میں سے ایک علامت ہے۔

ـ امام صادق علیه السلام نے فرمایا؛ پانج چیزیں قیام سے پہلے یقینی طور پر ہوں گی؛ خروج یمنی اور سفیانی، آسمانی آواز، بیداء کے مقام پر جنگی لشکر کا زمین میں دفن ہوجانا اور نفس زکیّہ کا قتل ہوجانا۔ (کمال الدین ص 588/ خصال ج 1 ص 303)

2. یمنی لشکر، حق کی دعوت دے گا۔

ـ ابو بصیر، حضرت امام محمد باقر علیه السلام سے روایت کرتے ہیں؛: «سفیانی اور یمنى اور خراسانى کا آنا ایک سال اور ایک ماہ اور ایک دن میں ہوگا، گلے کے ہار کی طرح کہ جس کے دانے منظم اور ایک کے بعد ایک ہیں۔... ان کے درمیان یمنیوں کا پرچم بہترین ہدایت کا پرچم ہے۔۔۔ کیونکہ ان کا لشکر حق پر ہوگا اور کوئی مسلمان ان کی مخالفت نہیں کرے گا۔ اور جو بھی ایسا کرے گا وہ دوزخی ہوگا۔ (غیبت نعمانی ص 255)

ان روایات سے یہ بات باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ یمن کی سرزمین مقدس اور یمنی انتہائی پاکیزہ فطرت لوگ ہیں اور آج کے زمانے میں یہ سعودی عرب کی قیادت میں وحشیانہ ظلم کا شکار ہیں اور ہم سب مسلمانوں کے اوپر ان کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کی جس حد تک ممکن ہو حمایت کریں اور ہمیں اِس بات کا پورا یقین ہے کہ اس ظلم کا انجام آل سعود کی نابودی ہوگا کہ جو ظہور امام زمانہ عج کے مقدمات میں سے ہوگا۔ و سَیعلَمُ الّذینَ ظَلَموا أَی مَنقَلَبٍ ینقَلِبونَ۔

انصار اللہ؛ یمن:

ستمبر 1962 میں عبداللہ سلال کی قیادت میں یمن میں زیدی اماموں کا 1000 ہزار سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اور "جمہوری" حکومت کا قیام ہوتا ہے۔ 1967 میں "قحطان الشعبی" کی قیادت میں جنوبی یمن مستقل حکومت کا اعلان کردیا جاتا ہے اور یوں جنوب اور شمال یمن میں جدائی ہوجاتی ہے۔ جنوب یمن "عوامی ڈیموکریٹک یمن" اور شمال میں "جمہوری عربی یمن" کا اعلان کردیتے ہیں۔ اکتوبر 1978 میں جمہوری عربی یمن، فوجی جنرل علی عبداللہ صالح کو 5 سال کیلئے اپنا صدر بنادیتے ہیں۔ 1983 میں اس مدّت کو 5 سال کیلئے اور بڑھا دیا جاتا ہے۔ صالح اور جنوب یمن کے حاکم ایک معاہدے کے تحت دوبارہ متحد ہونے کا اعلان کرتے ہیں کہ جس میں صنعاء کو دار الحکومت قرار دیا جاتا ہے اور یوں 1990 میں دونوں حصے دوبارہ ایک ہوجاتے ہیں۔ متحد یمن کا "جمہوری یمن" نام رکھا جاتا ہے جس کا صدر علی عبداللہ صالح کو بنایا جاتا ہے۔ صالح کی امریکا سے خاص قربت تھی جس کی وجہ سے یمن کی حکومت نے ان غربی ممالک سے دفاعی معاہدے بھی کئے۔

ایک اہم بات جو زیدی شیعوں کے دوبارہ کھڑے ہونے کا باعث بنی وہ سعودی عرب کی طرف سے وہابییت کی ترویج تھا کہ جس کی وجہ سے یمنی شیعہ شدید دبائو میں زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے ساتھ عبداللہ صالح سعودی عرب کے سامنے مکمل غلام بنا ہوا تھا جس کو غیرت مند یمنی بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔

الحوثی تحریک ایک مذہبی، نظریاتی اور سیاسی تحریک ہے کہ جس کا مقصد یمن سے استکباری تسلّط اور وہابیت کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے پہلے سربراہ سید حسین الحوثی تھے کہ جو سید بدر الدین الحوثی کے فرزند تھے۔ سید بدر الدین الحوثی انقلاب اسلامی ایران سے بہت زیادہ متاثر تھے اور 80 کی دھائی میں تن تنہا وہابی افکار کی خلاف کھڑے ہوئے کہ جس کی وجہ سے ان کو یمن سے جلاوطن کردیا گیا اور انہوں نے ایران میں پناہ لی۔ سید بدر الدین نے پہلے "الحق" نامی تحریک کا آغاز کیا کہ جس کی یمنی علماء نے مخالفت کی اور یوں سید بدر الدین نے یمن کے جوانوں کو اپنا مخاطب قرار دینا شروع کیا اور ایک اور تحریک "شباب المومن" کے نام سے شروع کی۔ یمن کے نوجوان اور جوان تیزی سے اِس تحریک کا حصہ بننے لگے، اس تحریک کا اصلی مقصد یمن میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہی تحریک آج "انصار اللہ" کی شکل میں موجود ہے۔

سید حسین حوثی نے 1991 میں یمن میں مسلحانہ جدوجہد کا آغاز کیا تو سید بدر الدین نے اتحاد کی خاطر اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور سب کو اس تحریک کا حصہ بننے اور سید حسین الحوثی کی بیعت کرنے کی تاکید کی۔

امریکا میں 11 ستمبر کے حملے کے بعد یمن میں عبداللہ صالح کی حکومت نے دہشت گردی سے جنگ کے بہانے مختلف ممالک سے دفاعی معاہدے کئے۔ 2004 میں حکومت سید حسین الحوثی سے اتنی زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی کہ ان کے سر کی قیمت 55 ہزار ڈالر مقرر کردی تھی۔

سید حسین الحوثی نے امریکی اور اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ جس کو عوام نے بہت پسند کیا۔ اور یہ عوامی مقبولیت اس قدر بڑھتی گئی کہ صنعاء میں نماز جمعہ کے اجتماع "اللہ اکبر، مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل" کے نعروں سے گونجنے لگے۔ اسی وجہ سے امریکی پشت پناہی کے ساتھ یمنی حکومت نے اس تحریک کو سختی سے کچلنے کا اعلان کردیا اور 2004 میں سید حسین الحوثی کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی عبدالملک الحوثی اس تحریک کے قائد بنے جو آج تک کامیابی سے اس تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ سارے یمن پر انصار اللہ کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

یمن کی جغرافیائی حیثیت؛

مشرق وسطی دنیا کا وہ حساس ترین حصہ ہے کہ جہاں بین الاقوامی نظام اور قوانین کے تحت اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بحران پیدا ہوئے ہیں جس میں سیاسی، مذہبی، قومی اور نژادی سارے بحران شامل ہیں۔ ایسے میں یمن کی جغرافیائی حیثیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یمن سعودی عرب کے جنوب میں واقع ہے اور کم از کم چار اہم اسٹریٹیجیک پہلو رکھتا ہے۔

1۔ نہر باب المندب؛ یہ وہ اہم ترین مقام ہے کہ جس پر یمن کا مکمل کنٹرول ہے۔ نہر سویز سے گزرنے والے زیادہ تر تجارتی بحری جہاز اسی نہر سے گزرتے ہیں، تو جس طرح نہر سویز کی اہمیت ہے اسی طرح نہر باب المندب کی بھی اہمیت ہے۔ 1973 میں مصر اور سوریا کی اسرائیل سے جنگ میں یمن نے اسرائیلی جہازوں کو باب المندب سے گزرنے سے منع کردیا تھا کہ جس کی وجہ سے اسرائیل کو بہت تقصان ہوا تھا۔ اس نہر کی اہمیت سے سب واقف ہیں کیونکہ یہ نہر افریقا اور مشرق وسطی کے درمیان اسٹریٹیجیک اہمیت رکھتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اوقیانوس ہند اور بحیرہ روم کے درمیان اہم نکتہ اتصال ہے۔

اس لئے خصوصی طور پر اسرائیل انصار اللہ کے یمن میں مکمل طور اقتدار میں آنے سے شدید خوفزدہ ہے کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو بحیرہ احمر سے اسرائیل کا رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ دوسری طرف یمن میں ایرانی متحد حکومت برسرپیکار آجانے سے سعودی عرب کی حکومت کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

2۔ بحیرہ عدن پر مکمل کنڑول۔

3۔ بحیرہ احمر کے اسٹریٹیجک بحری راستوں ہو کنٹرول۔

4۔ اہم پہاڑی سلسلہ "مران" پر کنٹرول۔

جنگ کا آغاز؛

2015 سے سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین کے ساتھ مل کر یمن پر ہوائی حملوں کا آغاز کیا۔ سومالیہ نے بھی اپنے ہوائی اڈے ان حملوں میں استعمال کیلئے دیئے۔

کس دلیل کے تحت یہ حملے کئے جارہے ہیں ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ منصور ہادی کی حکومت نے درخواست کی تھی کہ حوثی مجاہدین کو ختم کرنے میں مدد کی جائے کیونکہ اگر میزبان حکومت اجازت دے تو ایسا کیا جاسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ منصور ہادی کی حکومت تو ختم ہوچکی ہے تو پھر کس قانون اور درخواست کے تحت یہ حملے کئے جارہے ہیں؟!؟! منصور ہادی خود استعفی دے چکا ہے۔

درحقیقت سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت کے پاس اتنا اسلحہ آیا کہاں سے؟ کہ جو 7 سال سے مسلسل یمن کے مظلوم عوام پر مظالم ڈھائے جارہا ہے! 2015 سے 2019 تک سعودی عرب امریکا کی طرف سے اس مدّت میں فروخت کئے جانے والے 73٪ اسلحہ کا خریدار بنا۔ مشرق وسطی میں اسلحے کی فروخت میں 2010 سے 2019 تک 62٪ اضافہ ہوا ہے۔ امریکا نے صرف 2018 میں سعودی عرب کو 550 عرب اور 600 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔

ان اعداد و شمار سے واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ یمن کے مظلوم عوام کا اصلی دشمن امریکا ہی ہے جس نے پوری دنیا میں جگہ جگہ اپنی بربریت کی نشانیاں چھوڑ رکھی ہیں۔

حقوق بشر کی تنظیم "عین الانسانیة" کے تحت 2400 دنوں میں کہ جو تقریبا ساڑھے چھ سال کا عرصہ بنتا ہے، ۱۷ هزار اور ۲۹۰ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ۲۶ هزار اور ۹۳۱ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مارے جانے والے افراد میں ۴۲۷۰ بچے اور ۲۸۵۰ خواتین بھی شامل ہیں۔

ان حملوں میں ۱۵ ایئرپورٹ، ۱۶ بندرگاہیں، ۳۱۲ بجلی گھر، ۵۵۸ ٹیلفون ایکسچینج، ۱۹۹۴ حکومتی ادارے اور ۵۷۴۹ سڑکیں اور پلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسی طرح اب تک ۳۹۸ کارخانے، ۳۶۵ تیل کے ٹینکر، ۱۱ هزار اور ۸۴۸۳ ٹرانسپورٹ کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

اس کے علاوہ ۴۰۵ پیٹرول پمپ، ۶۸۹ بازار، ۵۷۹ هزار اور ۹۵۴ گھروں، ۱۸۰ یونورسٹیوں، 1128 اسکولوں ۱۴۷۸، مسجدوں، ۳۹۲ ہسپتالوں کو تباہ کرچکا ہے۔


بشکریہ: ادارہ البلاغ پاکستان و ریسسٹنس میڈیا گروپ پاکستان

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .