۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
ڈاکٹر یعقوب بشوی

حوزہ/چوده سو سال سے دلوں پر جس شخصیت کی حکومت ہے اسے حسین ابن علی(ع)کہتے ہیں۔حسین(ع)سے منسوب ہر چیز نرالی اور ہر کام منفرد ہے۔یہاں سے ہمیں امام حسین(علیہ السلام) کی الہی اور ملکوتی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔حسین علیہ السلام وہ ہیں کہ جس کا تذکرہ،موجب سکون اور جس کا نام،باعث رشد اور جس کی یاد،دلوں کا چراغ ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی। چوده سو سال سے دلوں پر جس شخصیت کی حکومت ہے اسے حسین ابن علی(ع)کہتے ہیں۔حسین(ع)سے منسوب ہر چیز نرالی اور ہر کام منفرد ہے۔یہاں سے ہمیں امام حسین(علیہ السلام) کی الہی اور ملکوتی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔حسین علیہ السلام وہ ہیں کہ جس کا تذکرہ،موجب سکون اور جس کا نام،باعث رشد اور جس کی یاد،دلوں کا چراغ ہے۔دنیا میں کوئی دوسرا جس کی شخصیت زبان رسالت چوس چوس کر بنی ہو؟جس کے لئے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سواری بنیں،جس کی خاطر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کبھی خطبے کو چھوڑیں تو کبھی سجدے کو طول دیں،کہیں"حسین منی و انا من حسین "کہہ کر ایک روح دو قالب اور جدائی ناپذیر ہونےکا اعلان فرمائے،یہ سوار دوش رسالت حسین ابن علی(علیہما السلام )ہیں جو چودہ سو صدیوں سے دلوں کا حاکم ہیں اور سوچوں پر سوار ہیں۔
جو چیز اسے منسوب ہوجائے الٰہی رنگ و بو اس میں آجائے اور وہ چیز صبغہ اللہ کا مصداق بن جاتی ہے۔
امام حسین (علیہ السلام) کا عاشورا بھی منفرد ہے تو آپ (علیہ السلام) کا چہلم بھی بے نظیر ہے۔
چہلم امام حسین (علیہ السلام )در اصل ظہور کی طرف حرکت ہے۔چہلم کے دن دنیا بھر سے کروڑوں عاشقان حسینی کربلا جمع ہو کر در اصل زمانے کے حسین فرزند زہرا امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ شریف) سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم آپ کو اب تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔چہلم ظہور ہی کی ایک کڑی کا نام ہے ۔اسی لئے اماموں کی طرف سے چہلم کو کربلا میں ہی منانے اور زندہ رکھنے کی تاکید ہوئی ہے تاکہ لوگ اس معجزے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
شاید یہی راز ہو کہ جس کی وجہ سے چہلم پر کربلا جانے کی فضیلتیں روایات میں بہت زیادہ ہیں ایک روایت میں یوں آیا ہے:" «عَنْ بَشِیرٍ الدَّهَّانِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (علیہ السلام) یَقُولُ‏ وَ هُوَ نَازِلٌ بِالْحِیرَةِ وَ عِنْدَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الشِّیعَةِ فَأَقْبَلَ إِلَیَّ بِوَجْهِهِ فَقَالَ یَا بَشِیرُ أَ حَجَجْتَ الْعَامَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ لَا- وَ لَکِنْ عَرَّفْتُ بِالْقَبْرِ قَبْرِ الْحُسَیْنِ( علیہ السلام) فَقَالَ یَا بَشِیرُ وَ اللَّهِ مَا فَاتَکَ شَیْ‏ءٌ مِمَّا کَانَ لِأَصْحَابِ مَکَّةَ بِمَکَّةَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ فِیهِ عَرَفَاتٌ فَسِّرْهُ لِی فَقَالَ یَا بَشِیرُ إِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَیَغْتَسِلُ عَلَى شَاطِئِ الْفُرَاتِ ثُمَّ یَأْتِی قَبْرَ الْحُسَیْنِ( علیہ السلام) عَارِفاً بِحَقِّهِ فَیُعْطِیهِ اللَّهُ بِکُلِّ قَدَمٍ یَرْفَعُهَا وَ [أَوْ] یَضَعُهَا مِائَةَ حِجَّةٍ مَقْبُولَةٍ وَ مِائَةَ عُمْرَةٍ مَبْرُورَةٍ وَ مِائَةَ غَزْوَةٍ مَعَ نَبِیٍّ مُرْسَلٍ إِلَى أَعْدَاءِ اللَّهِ وَ أَعْدَاءِ رَسُولِهِ [إِلَى أَعْدَى عَدُوٍّ لَهُ یَا بَشِیرُ] یَا بَشِیرُ اسْمَعْ وَ أَبْلِغْ مَنِ احْتَمَلَ قَلْبُهُ مَنْ زَارَ الْحُسَیْنَ( علیہ السلام) یَوْمَ عَرَفَةَ کَانَ کَمَنْ‏ زَارَ اللَّهَ‏ فِی‏ عَرْشِهِ‏"؛
بشير دهان کہتے ہیں : میں نے امام صادق (عليہ السلام) سے سنا ہے جب آپ ایک شیعہ جماعت کے ساتھ حيره کی طرف جا رہے تھے ؛ آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے بشير ، کیا اس سال حج کیا ؟ عرض کی: آپ پر قربان ہوجاوں ، نہیں کیا اما عرفہ کے دن قبر حسين (عليه السلام )کے پاس موجود تھا ؛ فرمایا : اے بشير خدا کی قسم، کوئی چيزي جو اصحاب مكه کےلئے مكه میں تھی تیرے ہاتھ سے نہیں گئی ؛ کہا: آپ پر قربان ، وہاں عرفات کا میدان بھی تو ہے ، (کیسے ممکن ہے میں ان سے برابری کروں اور کوئی چیز ثواب کے اعتبار سے ان کے مقابلے میں کم نہ ہوئی ہو)‌میرے لئے وضاحت فرمائے ؛ امام نےفرمایا : اے بشير جب تم میں سے کوئی شخص فرات کے پانی سے غسل کرتا ہے پھر امام حسين بن علی(علیہما السلام ) کی قبر کی طرف آپ کی معرفت کا جو حق ہے اس کے ساتھ چلتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا یا رکھتا ہے سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کا ثواب عطا فرماتا ہے اور سو جہاد کا ثواب جو دشمنان خدا اور دشمنان رسول اللہ کے خلاف کسی مرسل نبی کے ساتھ کیا ہو،اس کا ثواب بھی اسے دیتا ہے ؛ اے بشير سنو اور اس(روایت)کو اس شخص کےلئے بیان کرو جس کا دل اسے برداشت کرسکے ! جو حسين (عليه السلام )کی زيارت كرے وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی ہو؛(ابن قولويه (متوفاى367هـ)، كامل الزيارات، ص320)۔اس زیارت کی اتنی فضیلت اس لئے ہے کہ گویا یہ خود خدا کی زیارت ہے۔انسان کامل مظہر صفات الہیہ ہوتا ہے ۔بعض روایات میں چہلم کی زیارت کی فضیلت اور آداب کے بارے میں معصوم سے یوں آیا ہے : «مَنْ أَتَی قَبْرَ الْحُسَیْنِ (علیہ السلام) مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ وَ مَحَا عَنْهُ أَلْفَ سَیِّئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ أَلْفَ دَرَجَةٍ فَإِذَا أَتَیْتَ الْفُرَاتَ فَاغْتَسِلْ وَ عَلِّقْ نَعْلَیْکَ وَ امْشِ حَافِیاً وَ امْشِ مَشْیَ الْعَبْدِ الذَّلِیلِ »؛
جو شخص پیدل زیارت قبر حضرت امام حسین (علیه السلام)کی طرف چلے تو اللہ تعالی اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھائے گا،ہزار نیکی و حسنہ اس کےلئے لکھے گا اور ہزار گناہ اس کے نامہ عمل سے مٹا دے گا اور اس کےلئے ہزار درجے و مرتبہ کو بلند فرمائے گا۔پھر فرمایا: جب فرات پر داخل ہوں تو ابتداء غسل کرو اور اپنے جوتے آویزاں کرو اور پابرہنہ راستہ چلو اور ذلیل عبد کی طرح راہ چلو۔
زیارت امام حسین (علیہ السلام )کے ثواب انسان کے تصور اور اس کے  محاسبات سے  بالاتر ہے کیونکہ یہ کوئی عام اور معمولی سفر نہیں، بلکہ ایک ملکوتی،الہی اور عبادی سفر ہے جو زائر کے اندر ایک فکری اور معنوی انقلاب برپا کرتا ہے،یہ سفر مقدر ساز ہے۔یہ سفر زمانے کے ہر عاصی کو حر بنائے گا۔
امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:"
مَنْ أَتَى قَبْرَ الْحُسَیْنِ (علیه السلام )مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ وَ بِکُلِّ قَدَمٍ یَرْفَعُهَا وَ یَضَعُهَا عِتْقَ رَقَبَةٍ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِیلَ"؛ کامل الزیارات134)؛جو شخص پیدل امام حسین (علیه السلام )کی قبر کی زیارت کےلئے آتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا اور رکھتاہے اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھتا ہے ۔یہ سفر اقدار دینی اور اقتدار دینی کا ایک حسین تجلی ہے۔یہ بات دوست دشمن سب پر عیاں ہے کہ چھلم امام حسین (علیہ السلام) دنیا میں سب سے بڑا اجتماع ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ کسی کو اس اجتماع میں شرکت کےلئے کوئی دعوت نامہ نہیں ملی،اس کے باوجود پوری دنیا سے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آتا ہے اور ان تمام لوگوں کےلئے عراقی عوام کی طرف سے ہر قسم کی سہولتوں کی فراہمی،دنیاوی تمام محاسبات کو باطل قرار دیتا ہے ۔یہاں ظاہری امیروں کو غریب جی بھر کے کھلاتے ہیں۔امیر کھانے والے اور غریب کهلانے والے ہیں ۔اس سفر کی سعادت حاصل کرنے والے جانتے ہیں کہ خدمت خلق کا اسے بہتر کوئی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملے گی۔در حقیقت یہ ایک طرف فیض حسین(علیہ السلام )کا ایک تجلی ہے تو دوسری طرف تہذیب تشیع کا عملی نمونہ اور ایک جھلک ہے۔کوئی تشیع کو سمجھنا چاہتا ہے تو وہ چھلم اور عاشورا کے دن سمجھے۔تشیع انسانیت کی ارتقاء اور بقاء کے ضامن کا نام ہے اور احترام و تکامل معنوی کی ضمانت ہے اربعین ہماری حقیقی پہچان ہے ۔انسانیت کے ضابطے دنیا کو  ہم بتائیں گے کیونکہ قاتل کو شربت پلانے والے ہم ہیں۔چھلم در اصل تحریک کربلا کا رواں دواں ایک حصہ ہے یہ شعور حسینی ہے جو ہر خوابیدہ شخص کے لئے بیداری کی نوید ہے اور ہر گمراہ انسان کےلئے راہ اور چراغ ہدایت ہے۔چھلم یہ پیغام دنیا کو دیتا ہے کہ طاقت حق نہیں، بلکہ حق ہی طاقت ہے اس جملے کی حقیقت تب کھلے جب ہم تاریخ کے آئینے میں کربلا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کربلا وہ واحد جنگ تھی کہ جس میں تلوار ہار گئی، خون جیت گیا!قیامت تک آنے والے انسانوں کےلئے زندگی اور بقاء کا راز کربلا ہے۔خدا تک جانے کا گر یہاں سے ملے۔
یہاں سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ عشق حسینی سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں کیونکہ یہ وہی عشق خدا ہے جو ہر گزرتے دن اپنا نیا چہرہ دکھا کر دنیا کو مکتب حسینی کا دیوانہ بنا دے گا ۔چھلم وہ الہی سفر ہے جو ظہور کی طرف لیکے چلتا ہے اور ہر دن اور ہر لمحہ ہمیں ظہور سے قریب سے قریب تر کردیتا ہے ۔آج چھلم امام حسین( علیہ السلام )کے اجتماع نےطاغوتی طاقتوں کی نیندیں حرام کی ہے اور یہی مقصد شہادت امام حسین (علیہ السلام)ہے کہ ظالم ظلم کرکے خوشیاں نہ منائیں بلکہ تلخ انجام سے بھی ڈریں ۔چھلم کے دن جسمی اور ظاہری طور پر کوئی مومن کربلا نہ بھی جاسکے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ قلبی اعتبار سے کربلا میں موجود ہے اور اپنے مولا کی آواز پہ لبیک کہہ رہا ہے امام صادق (علیہ السلام)زیارت رجبیہ میں یوں فرماتے ہیں:"لَبَّيْكَ داعِيَ اللّٰهِ، إِنْ كانَ لَمْ يُجِبْكَ بَدَنِي عِنْدَ اسْتِغاثَتِكَ وَ لِسانِي عِنْدَ اسْتِنْصارِكَ، فَقَدْ أَجابَكَ قَلْبِي وَسَمْعِي وَبَصَرِي"؛اے اللہ کی طرف بلانے والا لبیک، اگرچہ جس وقت آپ استغاثہ بلند کررہےتھے میں جسمی طور پر آپ کی آواز پہ لبیک نہ کہہ سکا اور جب آپ مدد مانگ رہے تھے تو میں لسانی طور پر آپ کی نصرت نہیں کرسکا لیکن میرا مولا میرے دل،سماعت اور بصارت نے آپ کی آواز پر لبیک کہی ہے اب یہ دل تیرا ہے۔اب اس دل میں کسی طاغوت کی محبت آنہیں سکتی اور اب یہ وجود وقف ہے حسین ابن علی کے لئے۔اربعین دنیا کو مقصد حسین سے قریب کرنے کے لئے ایک پل ہے اور حسین شناسی کا ایک مکمل باب ہے ۔اربعین در اصل میں تمام انسانیت کو شمع حسینی کے گرد گھومتا ہے اور محبت حسین کی وجہ سے ایک برابری اور برادری کی فضا سے اشنا کرتا ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • syedalihaider2526@gmail.com IR 12:47 - 2021/09/26
    0 0
    ماشاالله