۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
News ID: 372617
22 ستمبر 2021 - 14:48
سکندر علی بہشتی

حوزہ/ کہتے ہیں کہ کچھ طالب علموں کے درمیان تقریباً 13دن تک گھوڑوں کے دانتوں کی تعداد پر بحث ہوئی ہر ممکن کوشش ہوئی اور یہ دیکھا گیا کہ سابقہ ماہرین کی کتابوں میں اس بارے میں کیا کہاگیاہے لیکن اس بارے کوئی چیز نہیں ملی،بالآخر 14ویں روز ایک طالب علم نے کہا کہ اتنے سارے گھوڑے ہیں کسی ایک کے دانت کو شمار کرتے ہیں اوربحث کو ختم کرتے ہیں۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسیکہتے ہیں کہ کچھ طالب علموں کے درمیان تقریباً 13دن تک گھوڑوں کے دانتوں کی  تعداد پر بحث ہوئی ہرممکن کوشش ہوئی اور یہ دیکھا گیا کہ سابقہ ماہرین کی کتابوں میں اس بارے میں کیا کہاگیاہے لیکن اس بارے کوئی چیز نہیں ملی،بالآخر 14ویں روز ایک طالب علم نے کہا کہ اتنے سارے گھوڑے ہیں کسی ایک کے دانت کو شمار کرتے ہیں اوربحث کو ختم کرتے ہیں۔

یہ تجویز دوسرے طالب علموں کو اس قدر گراں اور سخت گزری کہ سب اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو زدوکوب کیا اور اپنے درمیان سے نکال باہر کیا۔

جب اس بارے میں گذشتگان کے  نظریات معلوم نہیں ہوئے تو سب نے فتویٰ دیا چونکہ سابقہ اساتذہ سے اس بارے میں ہم تک کچھ نہیں پہنچا اس لئے یہ مسئلہ لاینحل باقی رہ جاتاہے۔!

یہ ایک واقعہ ہے مگر لیکن ہم اپنے ارد گرد بھی دیکھیں تو بہت سے ایسے مسائل ملتے ہیں جس میں ہم دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں،خود سےغور وفکر کرنے کوگناہ تصور کرتے ہیں۔

انسان کاسب سے بڑا امتیاز عقل اور غوروفکر کی قدرت ہے۔جس کی بنا پر انسانوں نے اشرف المخلوقات کالقب پایاہے۔شخصیت پرستی،ایک انتہائی مہلک بیماری کی مانند ہماری رگوں میں گھس گئی ہے اور شخصیت،حقیقت کی جگہ بیٹھ چکی ہے۔

انسان کی انسانیت عقل سے ہے اور عقل غور،فکراور تدبر کے لئے جو انسان عقل کی چھٹی کردے اور ادھر ادھر کی سنی سنائی باتوں کو ہی حجت سمجھے تو گویا اس نے عقل پر دوسروں کو ترجیح دی ہے۔

قرون وسطی میں ارسطو کو ہی فصل الخطاب سمجھا جاتا تھا اور اس کی مخالفت کو قبول ہی نہیں کیا جاتا تھا۔

دور حاضر میں حقیقت پر استاد،پارٹی،گروہ قومیت،لسانیت کا رنگ غالب ہے،جو کہ حق کو سمجھنے میں رکاوٹ بنتا جارہا ہے۔

شخصیت پرستی کی مختلف صورتیں ہیں:
کسی شخصیت،نظریہ یافکر یاطریقۂ کار  سے اختلاف نظر کو دین ومکتب کی مخالفت سجھا جاتا ہے۔

قرآن میں یہودی اور عیسائی عوام کی مذمت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے دلیل اورخدا کے فرمان کی جگہ احبار ورہبان کی بات کومان لیا تھا۔جو وہ کہتے تھے قبول کرتے تھے چاہئے وہ دین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔چونکہ عوام کاکہناتھا احبار وریبان خدائی نمائندے ہیں،وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں اس لئے بلاچون وچرا اس کومان لیتے تھے۔

اس بارے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی جانب نظر کریں توشخصیت کسی بھی صورت حق وباطل کامعیار نہیں۔
قرآن کریم نے بھی(الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ.)کے ذریعے بہترین بات کی اتباع کی دعوت دی ہے۔

حضرت علی(ع) نے جنگ جمل کے موقع پر فرمایا:
«ان الحق والباطل لایعرفان باقدار الرجال اعرف الحق تعریف اہلہ واعرف الباطل تعرف من اتاہ.»
حق وباطل کا معیار شخصیات سے معلوم نہیں ہوگا پہلے حق کو پہچان لیں تو اہل حق خود بخود پہچانے جائیں گے اسی طرح پہلے باطل معلوم ہوتو اہل باطل خود سامنے آئیں گے۔

اس حدیث کے بارے میں ایک مفکر کاکہنا ہے کہ یہ حدیث سونےسے لکھنے کی قابل ہے۔ معروف مصری اہل قلم و ادب طہ حسین کے بقول،وحی الہی کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد اس سے بہترین کلام نہیں کہاگیاہے۔

بزرگوں ،نامور اور مشہور شخصیات کی قدر وقیمت اپنی جگہ مسلم ہے۔مگر کسی بھی شخصیت کوپرکھنے کے کچھ معیارات اسلام نے بیان کئے ہیں۔ان معیارات کو مدنظر رکھ کر ہی درست وغلط کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

مقصد یہ ہےکہ ہمیں حق کو سب سے بڑا معیار قرار دینے کی ضرورت ہے،کسی کے نظریے یاعمل کوعین حق قرار نہ دیں،
ہم ایک ہی عمل کے سلسلے میں  کسی مخالف کے بارے میں الگ رویہ اختیار کرتے ہیں اوراپنی من پسند شخصیات کے بارے میں ایک اور طرز عمل جوکہ یک بام دو ہوا کی مانندمتضاد ہوتا ہے۔

حقیقت کو شخصیات کے لئے معیار قرار دیں!امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:الحق احق ان یتبع :حق ہی کی پیروی کرنی چاہئے۔

معاشرے میں جب تک فکر وعمل کے تضاد پر حقیقت اور اصول غالب نہ آجائیں اس وقت تک بہتر تبدیلی کاامکان نہیں ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .