۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
حجت الاسلام سبحانی

حوزہ/ اگر حوزہ ہائے علمیہ میں امامت شناسی کے موضوع کو اس کے تمام جزئیات کے ساتھ پڑھایا جائے تو حوزہ ہائے علمیہ کی تاریخ میں ایک علمی انقلاب برپا ہوگا اور یہ موضوع نہ صرف امامت اور الہیات کے شعبہ جات میں بنیادی تبدیلی کا ذریعہ بنے گا،بلکہ دیگر اسلامی علوم میں بھی بنیادی تبدیلی کا ذریعہ بنے گا اور اس راستے کو جاری رکھنے سے شیعہ دینی مدارس کی علمی تاریخ میں ایک اہم تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین محمد تقی سبحانی نے، مرکزِامامت شناسی کے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حوزہ ہائے علمیہ میں امامت کے موضوع کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔

مرکزِامامت کے سربراہ نے حوزہ ہائے علمیہ میں امامت کی تخصص کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حوزہ علمیہ میں امامت کا علم ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگا،کیونکہ یہ خصوصی موضوع تقریباً12سال قبل حوزہ علمیہ میں منظور اور پڑھایا جاتا رہا ہے تاہم،اس کورس کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ہمیں مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

امامت کلچرل فاؤنڈیشن کے سربراہ نے امامت کے سلسلے میں مزید کہا کہ اگر حوزہ ہائے علمیہ میں امامت شناسی کے موضوع کو اس کے تمام جزئیات کے ساتھ پڑھایا جائے تو حوزہ ہائے علمیہ کی تاریخ میں ایک علمی انقلاب برپا ہوگا اور یہ موضوع نہ صرف امامت اور الہیات کے شعبہ جات میں بنیادی تبدیلی کا ذریعہ بنے گا،بلکہ دیگر اسلامی علوم میں بھی بنیادی تبدیلی کا ذریعہ بنے گا اور اس راستے کو جاری رکھنے سے شیعہ دینی مدارس کی علمی تاریخ میں ایک اہم تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔

حوزہ ہائے علمیہ کی انجمنِ کلام کے سربراہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ امامت شیعہ کے لئے دو جہتوں سے بہت اہم ہے:
1۔شناخت
2۔ہدایت
شیعوں کے نقطۂ نظر سے،پیغمبر (ص) کی رسالت،امامت اور ولایت کے مسئلے پر مبنی تھی، اگر ہم امامت اور ولایت کے مسئلے کوچھوڑ دیں تو ہم دین کے اصولوں کا نہ صرف ایک اصول کھو بیٹھیں گے بلکہ اہل بیت (ع) کے مکتب کی پوری پہچان کو بھی کھو بیٹھیں گے کیونکہ دین کا بیان اور یہاں تک کہ قرآن کے حقیقی معنوں کو کشف کرنا اہل بیت اور امامت کے ساتھ مختص ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں مختلف روایات پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلامی توحید بھی امامت کے مسئلے پر منحصر ہے۔

امامت کلچرل فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر نے اس روایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے«کَلِمَةُ لا إلهَ إلّا اللّهُ حِصنی فَمَن دَخَلَ حِصنی اَمِنَ مِن عَذابی بِشُروطِها وَ أنَا مِن شُروطِها» و «اتخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللَّهِ »مزید کہا کہ توحید دو طرح کی ہوتی ہے،توحید ذاتی اور توحید صفاتی،لیکن توحید کا ثمرہ،توحید افعالی پر منحصر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عبادت اور اطاعت کے مقام پر توحید کا قائل نہ ہو تو توحید پر اس کے عقیدے کا اصول باطل ہے،لہذا تشیع کے نقطۂ نظر سے اسلامی توحید امامت اور امامت کی اطاعت پر منحصر ہے اور رسول خدا(ص)کی ولایت اور قرآن کی ہدایت کرنا بھی امام کے وجود پر منحصر ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین سبحانی نے نشاندہی کی کہ رسول اللہ(ص)کے غدیر میں بیان کردہ فرامین کہ جس میں آپ نے فرمایا«من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ»اور حضرت زہرا علیہا السلام نے اپنے خطبے میں فرمایا«و طاعتنا نظاما للملة و امامتنا أمانا من الفرقة (للفرقة)»اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام کی کتاب کے ساتھ ہمراہی،ہدایت  کا بنیادی اصول ہے اور اگر امامت پر توجہ نہ دی گئی تو ہم قرآن کا حقیقی پیغام اور خالص اسلامی توحید کا ادراک نہیں کر سکیں گے،لہذا امامت اور اعتقادی مسائل کا دفاع،ہماری بنیادی اور اہم ترین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

مرکزِامامت کے سربراہ نے ہدایت کے پہلو میں امامت کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئےمزید کہا کہ ہمیں اہل بیت (ع) کی تعلیمات سے واقف ہونا چاہئے تاکہ عملی طور پر ہم امامت کے مبلغ بن سکیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ موضوع صرف امامت کی قبولیت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے تمام پہلوؤں پر عمل بھی اس اہم اصول کا مظہر ہے،مزید کہا کہ امامت انسانی ہدایت کا ایک ستون ہے،بدقسمتی سے دور حاضر میں یہ نظریہ بتدریج نظر انداز اور کم توجہی کا شکار ہو گیا ہے۔

انہوں نےامامت کے مسئلے کی طرف کچھ شیعہ علماء کی کم توجہی کی وجوہات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعوں نے فرضی مسائل پر اتنی توجہ دی کہ امامت جیسا اہم موضوع کو حاشیے پر رکھا گیا یا یہاں تک کہ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جس نے امامت کے اہم موضوع کو کمزور کیا اور بدقسمتی سے بعض صورتوں میں نادان دوست یا باشعور دشمنوں نے آہستہ آہستہ اس شبہے کو شیعہ معاشرے میں پھیلایا کہ امامت صرف ایک تاریخی مسئلہ ہے اور اس کا ہماری زندگیوں میں کوئی مستقل کردار نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 1399 شمسی میں مرکزِ امامت شناسی نے حوزہ ہائے علمیہ ایران سے رسمی طور پر اجازت کے ساتھ امامت سے متعلق مختلف شعبہ جات میں علمی سرگرمیاں شروع کر دیں تھیں اور اس وقت دو شعبوں"امامت شناسی اور بین المذاہب میں امامت کا تقابلی مطالعہ"میں کثیر تعداد میں طلباء زیر تعلیم ہیں۔

امامت شناسی کو حوزہ ہائے علمیہ کے تخصصی دروس کے طور پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے، حجۃ الاسلام و المسلمین محمد تقی سبحانی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .