۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مرحوم حجۃ الاسلام سید عنایت حسن الموسوی اعلیٰ مقامہ

حوزہ/ فنِ قضاوت کی بے نظیر شخصیت،سید عنایت حسن موسوی کی پہلی برسی کے موقع پر بلتستان یونیورسٹی میں عظیم الشان سیمینار کا اہتمام،ان کی زندگی پُر مغز تقاریر اور ادبی مقالہ جات پیش کئے گئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مبلغِ صمدانی،عالمِ ربانی،مروجِ مکتب ِقرآن وعترت،شہسوارِ میدانِ قضاوت حجۃُ الاسلام والمسلمین سید عنایت حسن موسوی(مرحوم) کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک سیمینار بلتستان یونیورسٹی کے انچن کیمپس آڈیٹوریم میں منعقد ہوا،یہ سیمینار اہلیان گول،حوزہ علمیہ جامعۃالنجف سکردو اور موسوی خاندان کے باہمی تعاون سے منعقد ہوا۔اس سیمینار کی صدارت داعی اتحادِ بین ُالمسلمین حجۃُ الاسلام والمسلمین امام جمعہ والجماعت علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے کی۔ سیمینار میں علمائے کرام،شعراء حضرات،سیاسی اور سماجی شخصیات سمیت بلتستان بھر کے دانشوروں اور مقالہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت پر مشتمل اس سیمینار میں مرحوم حجۃ الاسلام و المسلمین سید عنایت حسن موسوی کی سماجی زندگی،دینی خدمات اور فنِ قضاوت سے جُڑے واقعات بیان کئے گئے۔

تفصیلات کے مطابق،مقررین نے مرحوم کی دینی و سماجی خدمات کو تحلیلی و تحقیقی انداز میں پیش کیا۔ دو نامی گرامی شعراء یوسف کھسمن اور زہیر کربلائی نے ”کلام شاعر بزبان شاعر“ کےعنوان سے مرحوم سید کی زندگی کو شاعرانہ تکلم میں اور قافیہ بندی کی لڑی میں پرو کر سامعین و ناظرین کے سامنے پیش کیا اور بھرپور داد حاصل کی۔

حجۃُ الاسلام شیخ احمد نوری نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے جبکہ علی نوری نے میزبانی کے فرائض کا خیال رکھا۔سیمینار کے آغاز کے ساتھ ہی آڈیٹوریم میں سامعین و ناظرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی،ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں کو سید مرحوم کی زندگی اور حالات پرمبنی واقعات سننے کا شدت سے انتظار ہے۔

شیخ احمد نوری نے سیمینار کے باقاعدہ آغاز ہونے کی نوید سنائی اور مختصر تمہید میں سیمینار کے اغراض و مقاصد اور ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم و مغفور سید عنایت حسن موسوی کو ہم سے جُدا ہوئے ایک سال ہوگیا،اُن کی تقویٰ پر مبنی زندگی،دینی خدمات اور سماجی فرائض کو محفوظ بنانے کےلئے یہ سیمینار منعقد کیا گیا ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ سکردو،داعی اتحاد بین المسلمین علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے مولائے کائنات کے ایک عظیم جملے سے اپنی گفتگو کی ابتداء کی اور بیان کیا کہ وہی شخص احکامِ الہٰی کا نفاذ کرسکتا ہے جو اپنی کمزوری ظاہر نہ کرے۔ قضاوت فقہی ابواب میں سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ایک قاضی  کے لئے قضاوت کی تمام باریکیوں سے آشنا ہونا ضروری ہے۔  مرحوم سید عنایت حسن موسوی کی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ آپ ذہین اور قابل قاضی تھے،فنِ قضاوت میں یدِ طولیٰ رکھتے تھےاور پورے بلتستان میں صفِ اول کے ذاکر اور خطیب تھے۔ اِس قسم کی شخصیات کےلئے سیمیناروں، کانفرنسوں اور محافل کا انعقاد انتہائی ضروری ہے۔

گلگت بلتستان کے عظیم مورخ  محمد حسن حسرتؔ نےاپنے مقالےکےپہلے حصے میں مرحوم سید کے حالات و واقعات بیان کئے ۔دوسرے حصے میں مرحوم کے خاندانی پسِ منظر کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ محمد حسن حسرتؔ نے کہا کہ آقاسید عنایت حسن موسوی نے اپنے آباؤ واجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دین کی آبیاری کی۔ مرحوم کی زندگی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ اس قسم کے سیمیناروں کا انعقاد تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔

سابق اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی حاجی فدا محمد ناشادؔ نےکہا کہ مرحوم سید عنایت حسن موسوی سوال پسند ذہنیت کے مالک تھے۔ شرعی فیصلوں میں ہمیشہ بے باک رہے۔ اُن کی ذات سے کبھی جانبداری مترشح نہیں ہوئی۔ سید عنایت حسن حب الوطنی اور نظریۂ پاکستان کی بقاء کے شیدائی تھے۔ مرحوم آغا شعر فہمی میں  بھی یدِ طولیٰ رکھےتھے۔ سماجی اور ادبی حلقوں میں مرحوم کا بڑا مقام تھا۔ اُن کی پوری زندگی تبلیغِ دین، سماجی خدمات اور مصالح کی حیثیت سے گزری۔

سابق سینئر وزیرگلگت بلتستان کابینہ حاجی اکبر تابانؔ نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ سید مرحوم دینی علوم خصوصاً قضاوت پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ علاقہ گول میں  قضاوت کی لڑیاں پرونے کا نیک عمل سید عنایت حسن موسوی کے خاندان نے انجام دیا۔

معروف دانشور احسان علی دانشؔ نے مرحوم سید کی شخصیت پر ”اندازِ تخاطب اور حُسنِ ظرافت“ کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سید عنایت حسن موسوی کوگول والوں نے 75 سال سُنا۔ وہ ہر بار نئی گفتگو، نئے لہجے اور نئے موضوعات پر بات کرنے والے انسان تھے۔ وہ حلقہ احباب میں موجود ہر شخص کے مزاج سے واقف تھے۔ دلنشین خطیب تھے، سامعین کو متاثر کرنے کےلئے بے جا لفاظی نہیں کرتے تھے۔ مادری زبان کی فصاحت و بلاغت سے کما حقہ آشنا تھے۔ ان کی زندگی کا پیمانہ مسجد سے گھر اور گھر سے مسجد تک تھا لیکن یہ پیمانہ تقدس اور علمی نگینوں سے پُر تھا۔احسان دانشؔ نے جوش ملیح آبادی اور تاریخی وقائع سے مدد لیتے ہوئے مرحوم سید کی سیرت کو جامع انداز اور زبردست ادیبانہ پیرائے میں بیان کیا۔

معروف صحافی محمد قاسم نسیم نے کہا کہ سید عنایت حسن موسوی نے پوری زندگی تعلیماتِ محمد و آلِ محمدﷺ کی ترویج میں گزاری اور سیمینار کی انتظامیہ کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ اُنہوں نے اس قدر عظیم الشان سیمینار منعقد کیا۔

ڈاکٹر حسن خان اماچہؔ نے سید مرحوم کے گھریلو معاملات کو موضوع سُخن بناتے ہوئے کہا کہ مرحوم سید اور اُن کی زوجہ محترمہ فقہی معاملات میں برابری کا درجہ رکھتے تھے جبکہ ادبیات میں سید مرحوم کی زوجہ نمایاں مقام رکھتی تھیں۔ڈاکٹر حسن خان اماچہ نے مزید کہا کہ بلتستان کی خواتین معنوی اور مادی کارناموں کی حامل ہوتی ہیں۔

معروف عالم دین استاد سید مصطفیٰ شاہ موسوی نے تقریر کرتے ہوئے علمائے اعلام کی ذمہ داریوں اور مقام کو اُجاگر کیا اور کہا کہ لوگ علماء کی اطاعت کے دعویدار ہیں لیکن تمام تر غلطیوں کے بعد اِزالے کےلئے علماء کے پاس آتے ہیں۔ آغا عنایت حسن موسوی حسباً و نسباً یکتائے روزگار تھے۔

بلتستان کے بزرگ عالم دین سید علی گہوری نے اظہارخیال کرتے ہوئے مرحوم آغا عنایت کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

حوزہ علمیہ جامعۃ النجف کے مدیر شیخ محمد علی توحیدیؔ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علمائے کرام انبیاء کے وارث ہیں۔ سید عنایت حسن موسوی کی یاد میں سیمینار منعقد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عظیم شخصیات کی خدمات کو سراہا جائے۔ اس لئے کہ یہ عظیم شخصیات زندگی بھراہم مقاصد کے حصول کےلئے تگ و دو کرتی ہیں اور پورے معاشرے پر ان کا عظیم احسان ہوتاہے جس کی قدردانی قوم پر واجب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ہم علم اور علماء کی اہمیت کو اجاگر نہیں کریں گے معاشرے میں علم اور عالم دونوں مظلوم رہیں گے۔

حجۃ الاسلام توحیدی نے کہا کہ بلتستان کی دیگر عظیم شخصیات کی خدمات کو بھی زندہ رکھنے کے لئے سیمیناروں اور کانفرنسوں کی ضرورت ہے۔

آخر میں اظہار تشکر کرتے ہوئے مرحوم کے فرزندِ ارجمند سید محمد علی شاہ موسوی نے کہا کہ مجھے آج احساس ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ والدِ مرحوم کی زندگی اور شخصیت کے تمام پہلوزیرِ بحث لائے گئےالبتہ اتحاد ِ بین المسلمین کا پہلو بھی زیرِ بحث آتا تو بہتر تھا کیونکہ  مرحوم کے تمام بیانات میں ہمیشہ اتحادِ اُمت کا ذکر ہوتا تھا۔بعد از آن انتظامیہ کی جانب سے  مقالہ نگاروں اور شعراء حضرات کی خدمت میں لوح تقدیر پیش کیا گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .